• صارفین کی تعداد :
  • 3366
  • 8/30/2008
  • تاريخ :

ترک معمولات یا زندگی کی یکسانیت سے نجات ؟

رمضان الکریم

روزے پر ایک سنجیدہ قسم کا اعتراض یہ ھے کہ روزہ رکھنے سے انسان کی زندگی کے معمول (Routine)  میں خلل      (Disturbance) ایجاد ھو جاتا ھے اور اسکی روزمرّہ زندگی موجودہ نظم (Discipline) سے خارج ھوجاتی ھے لھٰذا بھت سے افراداپنے روزہ نہ رکھنے کی وجہ یہ بتاتے ھیں  کہ ھمارے کام کی نوعیت اس طرح کی ھے کہ ھم روزہ نھیں  ر کہ سکتے اور اس طرح اپنے آپ کو مطمئن کر لیتے ھیں، بلکہ بعض اوقات اس بات پر افتخار کرتے ھیں  کہ ھم اھل کسب و کار ھیں، ھماری زندگی کا ایک معمول ھے جسے ترک کر کے روزہ رکھنا ھمارے لئے سخت یا ناممکن ھے گویا وہ دبے لفظوں  میں  یہ تاثر دینا چاھتے ھیں کہ روزہ رکھنا یا اس طرح کے دیگر امور کو انجام دینادر حقیقت ھمارے لئے مناسب نھیں  ھے بلکہ یہ ریٹائرڈ اور بے کسب و کار لوگوں کے لئے ھے جن کے پاس ان کو انجام دینے کے لئے کافی مقدار میں  وقت موجود ھوتاھے ۔

اب اگر ھم انسان کی اس ذھنیت کی تحلیل (Analyse) کریں  اور تلاش کریں  کہ اس میں  یہ تفکّر کھاں  سے پیدا ھواتو معلوم ھوگا کہ یہ طرز فکر در حقیقت روزہ اور اسکے علاوہ دیگر بھت سی عبادتوں  کے ایک بھت ھی اھم فلسفہ اور راز سے نا آگاھی کا نتیجہ ھے اور وہ ھے روز مرّہ زندگی اور معمولات کے زندان سے نجات، جسکی وضاحت کے لئے ایک مختصر سی گفتگو ضروری ھے ۔

انسان اپنی زندگی میں  ایک طرح کے خود ساختہ معمولات (Routine) اورروز مرّہ عادتوں  کے ایک دائرے (Circle) میں  گرفتار ھے اور معمولات کا یہ دائرہ اتنا مضبوط ھے کہ یہ انسان کو باھر جانے کی اجازت نھیں  دیتا ۔ھر طبقے کے لئے اپنی روزمرّہ زندگی کی عادتوں  کا ایک خاص دائرہ ھے ،تاجروں  کا اپنا الگ دائرہ ھے، سروس پیشہ افراد کا الگ، ٹیچرس (Teachers) کا الگ، اسٹوڈنٹس (Students) کا الگ اور کسانوں  کا الگ بلکہ یہ کھا جا سکتا ھے کہ ھر انسان کا اپنا مخصوص دائرہ ھے، لیکن ایک چیزسب میں  مشترک ھے کہ سب کے سب اپنی ان روز مرّہ عادتوں  کے دائرے میں  سختی سے گرفتار ھیں، مثلاًصبح اٹھ کر ناشتہ کرنا پھررزق کے انتظام میں بازار، آفس، کھیت یا کسی تعلیمی و غیر تعلیمی ادارے کی طرف چلے جانا، وھاں بھی کچھ معمول کے کام انجام دینا، واپس آکر کچھ روز مرّہ کے امور انجام دینا مثلاً کھانا پینا، چند لوگوں  سے کچھ محدود دائرے میں  باتیں  کرنا، ٹیلی ویژن و غیرہ دیکھنا اور پھر نیند کی آغوش میں  چلے جانا تاکہ تر و تازھ ( Refreshed and Recharged) ھو کر پھر کل اسی معمول (Routine) میں  مشغول ھوجائیں ۔

اسطرح انسان کی زندگی ایک مثلث (triangle) کے گرد چکّرلگا رھی ھے جس کے تین زاویوں  میں  سے وہ کسی ایک زاویے پر اپنا قیمتی وقت گذار رھا ھوتا ھے۔

 (۱) کھانے کے لئے مواد فراھم کرنا۔

 (۲) فراھم شدہ مواد کو کھانا۔

 (۳) مزید مواد فراھم کرنے کے لئے استراحت کرنا۔

یہ سو فیصد ایک حیوانی نظام زندگی (system of life) ھے اور اس میں  اگر کچھ چیزیں  اور اضافہ کر لی جائیں   مثلاًاس مثلث سے بچے ھوئے وقت اور اسباب کو اگر وہ اپنی پسندیدہ تفریح، عیّاشی اور خود نمائی میں  گزارے تو حیوانی زندگی سے کھیں  زیادہ بد نما صورت حال پیدا ھو جاتی ھے ۔وہ انسان جسے مسجود ملائکہ بننے تک کا سفر طے کرنا تھا اسکی ایک عجیب و غریب تصویر بن جاتی ھے اور حیرت اس بات پر ھے کہ پھر وہ اسی زندگی پر افتخار کرتا ھے کہ ھماری مشغولیت اجازت نھیں  دیتی کہ ھم کسی ایسے عمل کو انجام دیں  جو ھمارے معمول (Routine) سے خارج ھو۔

حکم روزہ اور اس کے علاوہ اور بھت سے احکام کا ایک بڑامقصد اور فلسفہ یہ ھے کہ انسان کو اسکی روزمرّہ عادتوں  کے نھایت تنگ اور محدود دائرے سے خارج کیا جائے ۔اس اخراج کے کچھ اھم اھداف ھیں  جو ذیل میں  بطور اشارہ مختصراً بیان کیے جارھے ھیں  ۔