سلیم بن قیس ھلالی
شیخ ابو صادق سلیم ‘قیس کوفی کے بیٹے اور امام علی‘ امام حسن‘ امام حسین اور امام زین العابدین علیھم السلام کے اصحاب میں سے تھے‘ آپ جوانی میں حضرت عمر کی حکومت کے دوران مدینہ میں داخل ہوئے اور نبی کریم کے اصحاب و انصار سے آشنائی کے بعد حضرت علی کا ساتھ دینے کو انتخاب کیا۔ آپ کا سلمان‘ ابوذر اور مقداد کے ساتھ انتہائی گہرا اور دوستانہ رابطہ تھا۔ آپ نبی اکرم (ص) کی سیرت اور آپ کی وفات کے بعد کے حالات کے بارے میں لوگوں سے پوچھتے اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو بھی یاد رکھتے۔
حضرت عمر اور عثمان کے زمانہ میں حدیث پر پابندی کے باوجود اپنی احادیث کو چھپائے رکھتے یہاں تک کہ حضرت علی کی حکومت کے دوران ان حقائق لکھنے کی فرصت آپ کو میسر آئی سلیم جنگ جمل‘ صفین اور نہروان میں امام علی کے ساتھ شریک ہوئے اور امام حسن و حسین علیھم السلام کے زمانہ میں آپ کا ساتھ دینے کو ہی ترجیح دی اور واقعہ کربلا کے دوران احتمالاً آپ قید تھے۔ امام حسین اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد امام زین العابدین کا ساتھ دیا اور 75ئھ میں حجاج بن یوسف کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر ایران چلے گئے اور فارس کے ایک شہر نوبندجان میں مقیم ہو گئے۔
اس شہر میں ابان بن ابی عباس نامی نوجوان سے واقفیت ہوئی اور دینی مسائل کو سیکھنے کا شوق باعث بنا کہ سلیم بن قیس نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں امام علی اور آپ کے بیٹوں اور دیگر اصحاب رسول کے فرامین کو ایک کتاب کی صورت میں تدوین کیا۔
76ئھ میں سلیم بن قیس کی وفات کے بعد ابان مدینہ گئے اور امام زین العابدین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلیم کی کتاب کو آپ کے سامنے پیش کیا ۔ امام کے دو صحابیوں ابوطفیل کنانی اور عمر ابی سلمہ نے تین دن کتاب کے مطالب کو امام کو پڑھ کر سنایا تو امام سجاد نے فرمایا سلیم نے سچ کہا ہے خدا اس کی مغفرت کرے یہ سب ہمارا کلام ہے کہ جس سے ہم آگاہ ہیں۔
امام نے اس فرمان کے ساتھ شیعہ کی پہلی تدوین شدہ کتاب کی تائید کی۔ سلیم کا نام معتبر شیعہ اصول لکھنے والے ایک مؤلف کی حیثیت سے درج ہے۔ ایک کتاب کہ جو کتاب سلیم بن قیس کے نام سے مشہور ہے علماء کرام کی توجہ کا باعث بنی ہے اور ان کا نظریہ ہے کہ گزشتہ زمان کے باوجود اس کے کتاب کے مطالب تحریف سے محفوظ رہے ہیں۔
ابان بن ابی عیاش ‘ ابراہیم بن عثمان اور ابراہیم بن عمر یمانی سلیم کے شاگردوں میں سے ہیں۔
اسلام ان اردو ڈاٹ کام