• صارفین کی تعداد :
  • 4161
  • 8/16/2008
  • تاريخ :

ایشیا کی مساجد (2)

بابری مسجد

بھارت کی مساجد

بابری مسجد

بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر نے 16 ویں صدی میں ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں تعمیر کرائی۔ یہ مسجد رام کوٹ پہاڑی پر تعمیر کی گئی۔

بابری مسجد بھارتی ریاست اتر پردیش کی بڑی مسجد میں سے ایک تھی۔

1528ء کے لگ بھگ انتہا پسند ہندوؤں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ مسجد رام کی جنم بھومی یعنی جائے پیدائش کو گرا کر تعمیر کی گئی ہے۔ 1949 میں مسجد کو بند کرا دیا گیا۔ اس طرح 40 سال سے زائد عرصے تک یہ مسجد متنازع رہی۔ 6 دسمبر 1992ء کو انتہا پسند ہندوؤں نے مسجد کو شہید کردیا۔ جس کے بعد بھارت میں اپنی تاریخ کے بدترین ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ جن میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں

1528: ایک ایسے مقام پر مسجد کی تعمیر جو ہندوؤں کے دعویٰ کے مطابق ’رام‘ کی جائے پیدائش تھی۔

1853: ایودھیا کے پہلے مذہبی فسادات۔

1859: برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی جانب سے عبادت کی جگہ کی تقسیم کر دی گئی۔

1949: مسجد کے اندر سے ’رام‘ کی مورتی کی دریافت۔ حکومت نے متنازعہ مقام قرار دے کر مسجد بند کروا دی۔

1984: وشوا ہندو پریشد کی جانب سے’رام‘ کی جائے پیدائش کو آزاد کروانےکے لیے تحریک کا اعلان۔ بی جے پی کے رہنما لعل کرشن ایڈوانی نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی۔

1986: ضلعی عدالت کی جانب سے ہندوؤں کو متنازعہ مقام پر پوجا کی اجازت۔ مسلمانوں کا جانب سے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام۔

1989: وشوا ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔

1990: وشوا ہندو پریشد کے حامیوں نے مسجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا۔ بھارتی وزیرِاعظم کی جانب سے مسئلے کے حل کی کوشش۔

1991: ریاست اتر پردیش میں بی جے پی حکومت کا قیام۔

1992: وشوا ہندو پریشد کے حامیوں کی جانب سے بابری مسجد کی شہادت۔ ہندو مسلم فسادات، تین ہزار افراد ہلاک۔

2001: انہدام کے 9 برس مکمل ہونے پر وشوا ہندو پریشد کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کا عزمِ نو۔

جنوری 2002: وزیرِاعظم واجپائی کے دفتر میں ’ایودھیا سیل‘ کا قیام۔

فروری 2002: بی جے پی کی جانب سے انتخابی منشور میں سے رام مندر کی تعمیر کی شق خارج۔ ایودھیا سے واپس آنیوالے ہندوؤں کی ٹرین پر حملہ 58 ہلاک۔ وشوا ہندو پریشد کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کےآغاز کے لیے پندرہ مارچ کی تاریخ کا اعلان۔

بابری مسجد کا خاکہ

مارچ2002: گجرات مسلم کش فسادات میں دو ہزار افراد ہلاک۔

اپریل 2002: ایودھیا کے متنازعہ مقام کی ملکیت کے بارے میں مقدمے کی سماعت کا آغاز۔

جنوری 2003: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی جانب سے عدالت کے حکم پر متنازعہ مقام کےجائزہ کا آغاز۔

اگست2003: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی جانب سے مسجد کے نیچے مندر کی موجودگی کے شواہد کا اعلان۔ مسلمانوں کی جانب سے اعتراضات۔

ستمبر 2003:عدالت کی طرف سے بابری مسجد کے انہدام پر ا کسانے کے الزام میں سات ہندو رہنماؤں پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ۔

اکتوبر 2003: مسلم تنظیموں کی جانب سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا مطالبہ۔

دسمبر 2003: انہدام کی گیارہویں برسی پر حیدرآباد دکن میں فسادات۔ پانچ افراد ہلاک۔

جولائی 2004: شیوسینا کے رہنما بال ٹھاکرے کی جانب سے مسئلے کے حل کے لیے متنازعہ مقام پر قومی یادگار کی تعمیر کی تجویز۔

اکتوبر2004: لال کرشن ایڈوانی کی جانب سے مندر کی تعمیر کی عزم کا اعادہ۔

نومبر 2004: الہٰ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے بابری مسجد معاملہ میں لعل کرشن ایڈوانی کو نوٹس۔

جامع مسجد دہلی

جامع مسجد دہلی

 

مسجد جہاں نما، جو جامع مسجد دہلی کے نام سے مشہور ہے، بھارت کے دارالحکومت دہلی کی اہم ترین مسجد ہے۔ اسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے تعمیر کیا جو 1656ء میں مکمل ہوئی۔ یہ بھارت کی بڑی اور معروف ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ یہ پرانی دلی کے مصروف اور معروف ترین مرکز چاندنی چوک کے آغاز پر واقع ہے۔

مسجد کے صحن میں 25 ہزار سے زائد نمازی عبادت کرسکتے ہیں۔ اس کی تعمیر پر 10 لاکھ روپے کی لاگت آئی۔

شاہجہاں نے اپنے دور حکومت میں دہلی، آگرہ، اجمیر اور لاہور میں بڑی مساجد تعمیر کرائیں جن میں دہلی کی جامع مسجد اور لاہور کی بادشاہی مسجد کا طرز تعمیر تقریباً ایک جیسا ہے۔

مسجد کے صحن تک مشرقی، شمالی اور جنوبی تین راستوں سے بذریعہ سیڑھیاں رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مسجد کے شمالی دروازے میں 39، جنوبی میں 33 اور مشرقی دروازے میں 35 سیڑھیاں ہیں۔ مشرقی دروازہ شاہی گذر گاہ تھی جہاں سے بادشاہ مسجد میں داخل ہوتا تھا۔

مسجد 261 فٹ طویل اور 90 فٹ عریض ہے، اس کی چھت پر تین گنبد نصب ہیں۔ 130 فٹ طویل دو مینار بھی مسجد کے رخ پر واقع ہیں۔ مسجد کے عقبی جانب چار چھوٹے مینار بھی واقع ہیں۔