دور ساسانیان
اردشیر بابکان نے ایران میں ایسی حکومت قائم کی جس میں دین ودنیا (حکومت) دونوں ایک ساتھ تھے اور یہ اس کی حکومت کی ایک اہم خصوصیت تھی، دوسری خصوصیت جو اس کی حکومت کو اشکانیان کی حکومت سے زیادہ امتیاز بخشتی ہے وہ اس کا اتحاد اورحکومت میں ذہنی تمرکز تھا ، اسکندر کے حملہ کے بعد اردشیر بابکان کے ذریعہ ساسانی سلسلہ کی تاسیس سے سرزمین ایران پر دوبارہ اتحاد قائم ہوگیا۔
خاندان ساسانی نے دوسرے قرن کے اوایل سے ہی آہستہ آہستہ، ولایت پارس میں اپنی قدرت اور نفوذ کو وسعت دینا شروع کردیا تھا، ساسانیوں کے جد بزرگ ساسان استخرمیں آتشکدہ آناہید کے پیشوا تھے پارس میں باز رنگیوں کی حکومت تھی انہوں نے ان میں شادی کرلی اوراس کا بیٹا بابک تقریبا ۱۵۵م میں یا اس سے پہلے متولد ہوا اوراس کے بعد اپنے باپ کی گدی پربیٹھا، بابک کا بیٹا اردشیر سپہ سالار بن گیا، تقریبا ۲۱۱۔۲۱۲م میں اطراف کے شہروں پر حملے کئے اور اپنے باپ کو بازرنگی پارس کے حاکم گوچہر کے خلاف بھڑکایا، بابک نے بھی تقریبا ۲۲۰م میں گوچھر کو قتل کردیا اور اردشیر کے ساتھ اپنی سرزمین کو وسعت دی، اردوان پنجم(یا ایک روایت کے مطابق اردوان چہارم)اشکانی بادشاہ نے (پارس کے واقعوں سے خطرہ کا احساس کرتے ہوے) ساسانیوں کو باغی قرار دے کر ان سے جنگ شروع کردی، اس طرح اردشیربابکان نے تیسفون پر قبضہ کرلیا اور خود کو بادشاہ کہلانے لگا، اردشیر نے عہد اشکانی کے بادشاہوں کی حکومت کو جڑسے ختم کردیا اور بڑے خاندانوں کی طاقت وقدرت کو بھی کم کردیا اور ایک منظم فوج جمع کرکے اپنی سرزمین میں اتحاد قائم کردیا البتہ اردشیر کو حقیقی حکومت اردوان پر غلبہ پانے کے کچھ دنوں بعد حاصل ہوئی،اس کی تیسفون میں تاچ پوشی اوربین النہرین کے شمال میں لشکرکشی کرنے کے بعد حکومت روم سے ارمنستان کے اوپر جنگ ہوگئی اور اس کی بادشاہت کے آخری دور تک روم سے جنگ چلتی رہی، بہر حال اردشیر کو اپنے جانشینوں کے نزدیک خاص اہمیت حاصل تھی اور بعد میں بہت بڑے حکیم اوردانشمند کے عنوان سے اس کو شہرت ملی۔
اس کے جانشین، شاپور اول (ح۲۴۰۔۲۷۰)نے مشرق اور مغرب میں کوشانیان اور رومیوں سے متعدد جنگیں لڑیں،انہیں جنگوں میں روم کا بادشاہ گردیانوس قتل ہوا (ح ۲۴۴)اور روم کا دوسرا بادشاہ والریانوس ۲۶۹۔۲۶۰میں اپنے فوجیوں سمیت گرفتار ہو گیا، شاپور اول کی بڑی حکومت نے ایران میں ساسانیوں کی حکومتوں کو اورمستحکم کردیا، ساسانیوں کی سرزمین میں مانی کی تعلیمات کو نشر کرنے کی اجازت بھی شاپور اول نے ہی دی تھی، یہ اجازت زردشتی رہنماؤں کی ناراضگی کا سبب بنی اور بھرام اول کے زمانے میں کرتیر (یا کردیر) کے اصرار پر مانیوں کے راہنماؤں کا سردارگرفتار ہوگیا اور جیل ہی میں اس کا انتقال ہوا (ح۲۷۷م)اس کے بعد بزرگان حکومت کی حمایت میں” نرسہ“ بادشاہ بنا،اوراس نے کرتیر کے اثرورسوخ کوختم کردیا لیکن ۲۹۸م میں ارمنستان نے رومیوں سے شکست کھائی جس کے نتیجہ میں شمال بین النہرین اور ارمنستان رومیوں کے قبضے میں چلا گیا، دجلہ کو حکومت کی آخری سرحد کے طور پرقرار دیا اس کے بعد سے لیکر تقریبا ۴۰ سال تک دونوں دشمنوں کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی، اس شکست نے ایران کو ایک حد تک ضعیف کردیا اور بالآخر ملک کی بڑی پوسٹ کے عہدیداروں نے بادشاہت ہرمزد دوم کے کم عمر بیٹے شاپوردوم کو سونپ دی اور حکومت کے دوسرے کام اپنے ہاتھوں میں لے لیے لیکن جب شاپور بڑا ہوا تواس نے اپنے آپ کو ان کے چنگل سے چھڑایا اور مستحکم عزم وارادہ کے ساتھ ساسانیان کی حکومت کو زوال سے بچا کر اس کو بہت طاقتور اورقدرتمند بنا دیا اس نے شروع میں عرب حملہ آورں کو سرکوب کیا اور یہ عربوں کے نزدیک ”ذوالاکتاف“ اور ایرانیوں کے نزدیک ”ھوبہ سنبا“(کندھوں میں سوراخ کرنے والا) کے نام سے ملقب ہوا، شاپوردوم نے رومیوں کے ساتھ دوبارہ جنگ کرکے پہلی جنگ کی یاد تازہ کردی، انہی جنگوں میں سے ایک جنگ میں روم کا بادشاہ یولیانوس قتل کردیا گیا (۳۶۳م) اور ساسانیان نے ایک وسیع زمین پرقبضہ کرلیا۔
شاپور دوم کے جانشین کسی لایق نہیں تھے یزدگرد کے زمانے میں روم پر غلبہ حاصل کرنے کے کئی موقع فراہم ہوئے لیکن وہ بادشاہ صلح پسند اور جنگ سے پرہیز کرتا تھا اس کے بیٹے بہرام پنجم (۴۲۰۔۴۳۸)، معروف بہ بھرام گور، نے مشرق ومغرب میں جنگیں کیں،پیروز کے دورمیں (حک ۴۵۹۔۴۸۴م) ایران ھیاطلہ مشرق کے حملوں سے پریشان تھا جس سے ملک میں ہرج ومرج اورناامنی بڑھتی جارہی تھی ملک کا نظام نجباء اور علماء کے ہاتھوں میں جا رہا تھاجب قباد اول کو حکومت ملی (۴۸۸م) تو اس نے انہیں حکومت کے انتظام سے نکالنے کے لئے مزدک (خداپرست) اور مزد کی تعلیم کی حمایت کی لیکن علماء اور نجباء نے اس کی شدت سے مخالفت کی اور اس کو کچھ دنوں کے لیے حکومت سے خلع کرکے جیل میں ڈالدیا (۴۹۶م)، جب دوبارہ اس کو حکومت ملی (۴۹۸م) تو میانہ روی اختیار کرنے لگا اور اپنی حکومت کو محفوظ کرنے کیلئے مزدک کے دشمنوں کا ساتھ دیا، ۵۲۸ یا ۵۲۹م کے اوایل میں مزدک کو مناظرہ کرنے پر مجبورکیا اور مناظرہ کے بعد اس کو اس کے کچھ پیروکاروں کے ساتھ قتل کردیا گیا۔
خسرو اول یا خسرو انوشیروان(حک ۵۳۱۔۵۷۹ک)جس کے حکم سے مزدک اور اس کے ساتھیوں کو قتل کیا گیا تھا اس نے مزدکیوں کو قلع قمع کردیا اور بیزانس کے ساتھ بھی جنگ کی(۵۴۰م) روم کے بادشاہ نے اس کی لشکرکشی سے پریشان ہوکر۵۶۱م میں دونوں حکومتوں کے درمیان ۵۰ سال تک کیلئے ایک صلح نامہ لکھوایا خسروانوشیروان نے ھیاطلہ کی حکومت کو جڑسے ختم کردیا (۵۵۷م) اور اعراب یمن کے حبشیوں کی وہاں سے نکلنے میں مدد کی (ح۵۷۵۔۵۷۷) اورشبہ جزیرہ عرب پر اپنا اثرورسوخ قائم کردیا، خسروانوشیروان کا ہدف عہدساسانی میں فقط ملک اور لشکر کو وسعت دینا نہیں تھا بلکہ اس کے زمانے میں دفاتر اوراجتماعی امور کی بھی اصلاح ہوئی اس نے مالیات (ٹیکس) حاصل کرنے کے طریق کو بھی بدل دیا، عدالت اور فوجی امور کی بھی اصلاح کری، اس کے دور میں جندی شاپورکے طب کے مدرسہ میں یونانی اور ہندوستانی کتابوں کا سریانی اور پھلوی زبانوں میں ترجمہ اور پھر وہاں پر ان کی تدریس ہوئی، ایرانی ا س کے زمانے میں شطرنج اور کتاب کلیلہ ودمنہ سے آشنا ہوئے اس طرح اس کا نام ایک آرمانی حکمران اور حکیم حاکم کے عنوان سے لوگوں کے دلوں میں باقی رہا۔
اس کے بعد اس کا بیٹا ھرمزد چہارم تخت پربیٹھا(۵۷۹م)اس کی حکومت کے زمانے کا اہم واقعہ بھرام چوبین کی سرکشی تھی، جس نے ساسانی شہنشاہیت کو ختم کرنے کیلئے تیسفون پر لشکرکشی کی، شرفاء اور علماء بھی ھرمزدسے ناراض تھے اس کو بادشاہت سے خلع کردیا اوراس کے بیٹے خسرو دوم یاخسرو پرویز کو تخت پر بٹھا دیا (۵۹۰م) لیکن نیا بادشاہ بہرام چوبین کی فوج کے سامنے سے بھاگ کر بیزانس کی پناہ میں چلا گیا اور پھر اس نے بیزانس بادشاہ کی مدد سے بھرام پر غلبہ حاصل کرلیا (۵۹۱م) خسرو پرویز نے بیزانس کی مدد کے مقابلہ میںمعاہدہ (۵۹۱) کے تحت سرزمین ساسان سے کچھ حصہ بیزانس کو دیا تاکہ دو بادشاہوں کے درمیان صلح برقرارہوجائے لیکن خسرو کے حامیوں نے بادشاہ روم کے خلع اورقتل کرنے میں اس کا بہت ساتھ دیا، ایرانی دو سردار، شہربراز اور شاہین نے اس سرزمین میں قابل توجہ فتوحات حاصل کیں یہاں تک کہ بیزانس کے ہاتھوں سے ایشیاء کے وہ تمام شہر جو اس کے قبضہ میں تھے چلے گئے حتی کہ قسطنطنہ بھی حملہ کی زد میں آ گیا،مصربھی ساسانی فوج کے قبضہ میں چلا گیا (۶۱۹م) اس طرح سے خسرو پرویز کی حکومت، ھخامنشیان کی حکومت کے برابر ہوگئی لیکن جنگ بہت لمبی ہوگئی اورجنگ کو طول دینے کیلئے خسرو کی ضد نے بیزانس کو تلافی کیلئے آمادہ کردیا،۶۲۷م سے بیزانس نے دوسرے علاقوں پر حملہ کرنے شروع کئے، آذربایجان کو ویران کردیا اور بیزانس کی فوج نے بین النہرین پر قبضہ کرلیا، خسرو پرویز کو حکومت سے قلع کرکے جیل میں ڈال دیا۔ اس کا بیٹا شیرویہ، معروف بہ قباد دوم تخت پر بیٹھا اور اس کے کچھ دنوں بعد خسرو پرویز کو جیل میں قتل کردیا گیا (۶۲۸م)، اس کی حکومت خودسری، غرور اور ہوس رانی کا شکار رہی اوراس کے زمانے میں جو جنگیں ہوئیں ان سے ملک برباد اورفقیر ہو گیا۔
قباد دوم نے بیزانس سے فورا صلح کرلی، ۳/سال تک مالیات(ٹیکس) کو معاف کردیا، اپنے باپ کے قیدیوں کو آزاد کردیا اور فوج کے سرداروں سے محبت سے پیش آیا لیکن اس کی حکومت کو ابھی ایک سال بھی نہیں گذرا تھا کہ خسرو پرویز کی جنگوں سے ایران میں جو طاعون آ گیا تھا اس نے قباد دوم کی زندگی کو ختم کردیا (۶۲۸م) اس کے مرنے سے ایران درہم وبرہم ہوگیا اور پستی کے آثارنمایاں ہوگئے، اس چارسال کی مدت میں یعنی خسرو پرویز کی موت سے لیکر یزدگرد سوم (۶۲۸۔۶۳۲م) کے تخت نشین ہونے تک دس سے زیادہ بادشاہ ایران کے تخت پر بیٹھے۔ان میں سے اردشیر سوم بہت کم عمرتھا، خسروپرویز کی بیٹی بوران پہلی عورت تھی جو ایران میں بادشاہ بنی اور آذرمیدخت خسروپرویز کی دوسری بیٹی کچھ دنوں کے لیے ساسانی حکومت کے تخت پربیٹھی۔
یزدگرد سوم کو تخت پربیٹھے ابھی دوسال ہی گُزرے تھے کہ ملک کی مغربی سرحد پر اس کو مسلمان عربوں سے سامنا کرنا پڑا۔ حجاز میں اسلام کوظہورکئے ہوئے ابھی چند ہی سال گزرے تھے لیکن انہوں نے ساسانیوں کو سوچنے کا موقع نہیں دیا، حیرہ(۱۲ق/۶۳۳م) پر مسلمانوں کا قبضہ ہونے کے بعد،عرب کی فوج نے قادسیہ (حیرہ کے نزدیک) میں پڑاؤ ڈالا، کئی مہینوں تک دونوں کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا اور جنگ شروع ہوگئی جس میں ساسانی فوج کا سرداررستم فرخ ہرمزد قتل ہو گیا(۱۶ق/۶۳۷) اس کے بعد تیسفون ثابت قدمی کے باوجود مسلمانوں کے ہاتھوں میں چلا گیا اوریزدگرد سوم ملک کے اندر بھاگ گیا اور آخری بار نھاوند میں مغلوب ہوگیا(۲۱ق/۶۲۴م)مسلمان عربوں نے اس کامیابی کا نام ”فتح الفتوح“ رکھا چونکہ اس کے بعد پھر کسی منظم فوج یا حکومت سے ان کو سامنا نہیں کرنا پڑا، یزدگرد سوم جوکہ ملک کے دوردرازعلاقہ میں جا کر چھپ گیا تھا کئی سال دربدر پھرنے کے بعد مرو کے علاقہ میں قتل کردیا گیا (۳۱ق/۶۵۱م) اس کے مرنے سے نہ صرف ساسانی سلسلہ ختم ہوا بلکہ ایران ”قدیمی دور“ سے منہ موڑ کر ”اسلامی دور“ میں داخل ہوگیا۔
اسلامی ثقافت و روابط سینٹر
متعلقہ تحریریں:
سلوکیان