• صارفین کی تعداد :
  • 4723
  • 6/30/2008
  • تاريخ :

”دعوت مطالعہ“

قرآن مجید

 

 قرآن کریم کا مقصد اور نصب العین نوع بشر کی ہدایت اور معنوی تکامل ہے۔ قرآن کوئی سائنسی کتاب نہیں ہے کہ جس میں فزکس، کیمسٹری، فلکیات وغیرہ سے بحث کی جائے یا سائنسی نظریات بیان کئے جائیں تاہم قرآن مجید نے بعض موارد میں اس کائنات اور اس کے اندر موجود اسرار و رموز کی طرف اشارہ بھی کیا ہے ان میں سے چند موارد کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ کہ یہ کائنات اور اس کے اندر موجود ساری موجودات (کتاب تکوین) بھی اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ہیں اور قرآن کریم نے کتاب تکوین کی مطالعے اور غوروفکر کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے کائنات اور تمام مخلوقات کے اندر غوروفکر سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی اور پیشرفت کا ضامن ہے وہ آیات جن میں مظاہر فطرت کی تحقیق اور مطالعے کی دعوت دی گئی ہے ان میں سے بعض آیات درج ذیل ہیں۔

قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقُ (عنکبوت:۲۰)

”آپ ان لوگوں سے کہیں کہ تم لوگ زمین پر چلو پھرو اور دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے مخلوق کو کس طرح ابتداء سے خلق کیا“

قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (یونس:۱۰۱)

آپ کہہ دیجئے کہ تم غور کرو اور دیکھو کیا کیا چیزیں ہیں آسمانوں اور زمینوں میں“

فَلْیَنْظُرِ الاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ (طارق:۵)

دیکھنا چاہیے کہ انسان کو کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے“

وَاِلَی السَّمَآءِ کَیْفَ رُفِعَتْo وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ o وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْo فَذَکِّرْ اِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِّرٌo لَسْتَ عَلَیْہِمْ ِمُصَیْطِرٍo اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَo فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَo اِنَّ اِلَیْنَا اِیَابَہُمْo ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْo (الغاشیہ:۱۷،۲۶)

”کیا اونٹ کو نہں دیکھتے کہ کس طرح عجیب طور پر خلق کیا گیا ہے اور آسمانوں کو نہیں دیکھتے کیونکر بلند کئے گئے اور پہاڑوں کی طرف، کہ وہ کیونکر گاڑے گئے اور زمین کی طرف، کہ اسے کس لئے بچھائی گئی ہے غرض یہ ہے کہ قرآن مجید میں جا بجا مطالعہ فطرت کی دعوت دی جا رہی ہے ایک تحقیق کے مطابق ۷۵۰ سے زیادہ آیات میں کائنات اور مخلوقات خداوندی کے بارے میں غورو فکر کرنے، تحقیق و مطالعہ کی تاکید کی گئی ہے ۔“

          مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ کائنات اور مظاہر فطرت کے بارے میں تحقیق کرنا اور ان تحقیقات کے نتیجے میں مختلف علوم کو پروان چڑھانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ آسمانوں کے مطالعے کی دی گئی ہے اگر اس موضوع پر تحقیق کرتے تو علم نجوم وفلکیات وجود میں آتے، زمین کے مطالعے کی دعوت سے علم الارض وجود میں آتا۔ جانوروں کے مطالعے سے علم الحیوان وجود میں آتا، اسی طرح سے سینکڑوں موضوعات ہیں جن میں تحقیق، غوروفکر کی براہ راست دعوت دی گئی ہے عقل وفکر کو بروئے کار لانے کا حکم دیا ہے۔ بنابریں ان آیات کی روشنی میں مسلمانوں کا یہ فریضہ بنتا تھا کہ وہ خالق کائنات کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس کائنات کی مطالعے میں لگ جاتے اور جس کے نتیجے میں تمام اختراعات ایجادات اور انکشافات کے مالک مسلمان ہوتے۔ جدید سے جدید ترین ٹیکنالوجی مسلمانوں کی طرف سے یورپ میں صادر ہوئے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلمان انہی آسمانی کتاب کی تعلیمات سے منہ موڑ لینے کی وجہ سے صورت حال اس کے برعکس ہو گیا ہے۔

 

 غیروں نے اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ترقی وتمدن کا سہرا اپنے سر پر سجا لیا اور مسلمان قرآنی تعلیمات کی طرف سے عدم توجہ کی وجہ سے پسماندگی کا شکار ہوگئے۔ احساس کمتری میں مبتلا ہو گئے۔ سائنسی پیشرفت اور ٹیکنالوجی میں اہل یورپ کے دست نگر بن گئے۔ جس کے نتیجے میں سیاسی اقتصادی دیگر امور می فیصلوں کے حق سے محروم ہو گئے۔ اپنے جائز اور بنیادی حقوق کے لئے ان کے آگے جھولی پھیلانے پر مجبور ہوئے۔ سیاسی، اقتصادی خودمختاری ان سے چھن گئی۔

          امیر المومنین  نے اس خطرے کی نشاندہی کر دی تھی۔ فرمایا:

اللّٰہ اللّٰہ فی القرآن لا یبقکم بالعمل بہ غیرکم۔ (نہج البلاغہ:۴۷)

”قرآن کے بارے میں ڈرتے رہنا ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں“

وکان من آیاتہ فی السموٰت والارض یمرون علیہا وہم عنہا معرضون۔ (یوسف:۱۰۵)

”اور بہت سی نشانیاں ہیں آسمانوں میں اور زمین میں جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے“

 مسلمان آج جس ذلت اور خواری میں مبتلا ہیں اس کا اصل سبب قرآن سے ان کا رشتہ اور تعلق کا نہ ہونا ہے ترقی کی دوڑ میں مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کا اصل سبب ان کے قرآن کے ساتھ ریاکاری ہے کیونکہ مسلمان زبانی طور پر قرآن کو بڑی اہمیت دیتے ہیں لیکن عمل کے میدان میں قرآن کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔

  رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ  اس موضوع کے بارے میں کہتے ہیں :

”ذرا مسلمانوں کی عملی زندگی کی طرف توجہ کیجئے ان کا قرآن کے ساتھ کیا رشتہ ہے کیا آپ کو مسلمانوں کی سیاسی اداروں میں قرآن کی معمولی جھلک نظر آتی ہے؟ کیا مسلمانوں کے اقتصادی اداروں میں اور ان کے اقتصادی مذاہب میں قرآن کی خوشبو ہے؟ کیا مسلمان اپنے بھائیوں کے ساتھ روابط کے حوالے سے قرآن سے رجوع کرتے ہیں؟ اور مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ کیسا رابطہ ہونا چاہیے اس کے بارے میں قرآن سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں؟ کیا ان کی یونیورسٹیوں ، کالجوں اور سکولوں میں قرآن کے لئے کوئی مقام ہے؟ کیا اسلامی ممالک غیر مسلم ممالک کے ساتھ روابط اور دوستی قائم کرتے وقت قرآنی اصولوں کا خیال رکھتے ہیں؟ کیا مسلمان قومی دولت وثروت کو قوم کے مختلف طبقوں میں تقسیم کے طریقہ کار کے بارے میں قرآن سے راہنمائی لیتے ہیں؟ کیا ہمارے حکمران رفتار کردار، اخلاق، رہن سہن، محافل ومجالس میں قرآنی احکام پر کاربند نظر آتے ہیں؟ کیا مسلمان حکمرانوں کی نجی زندگی میں قرآن کا کوئی حصہ ہے؟ ہمیں اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنا چاہیے کہ جتنا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ نے قرآن سے تمسک کرنے اور قرآنی سانچے میں ڈھلنے کی تاکید فرمائی ہے اتنا ہی مسلمان قرآن سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں“

”آج سے سو سال قبل عظیم مصلح اور مفکر اسلام سید جمال الدین افغانی اس بات پر خون کے آنسو روتے تھے کہ نام نہاد مسلمانوں نے قرآن کے ساتھ کیا کیا ظلم روا رکھا ہے، کیونکہ اسے اصل مقصد سے ہٹا کر گفٹ کے طور پر دینے، لائبریریوں کی زینت بنانے، قبور پر فاتحہ خوانی کے کام میں لایا جاتا ہے اور آخر کار طاق نسیان میں نفیس غلاف چڑھا کر رکھ دیا جاتا ہے“ 

                        تحریر:  ڈاکٹر سید عبدالوہاب طالقانے


متعلقہ تحریریں:

 عملی زندگی میں تصور خدا اور اس کے اثرات قرآن کی روشنی میں

 تلاوت کی ذمہ داری