• صارفین کی تعداد :
  • 4761
  • 2/10/2008
  • تاريخ :

ننانوے قتل

قتل بانو

پہلے زمانے ميں ايک شخص تھا اس نے ننانوے آدميوں کو ناحق قتل کيا اس کے بعد اس کو فکر لاحق ہوئي کہ آخرت ميں ميرا کيا انجام ہوگا، اس نے لوگوں سے دريافت کيا کہ اس وقت روئے زمين ميں سب سے بڑا عالم کون ہے؟

لوگوں نے اسے ايک راہب يعني بني اسرائيل کے عبادت گذار کا پتہ بتايا? چناچہ يہ شخص اس عابد کے پاس  پہنچا اور اسکے سامنے بيان کيا کہ ميں نے نناوے آدميوں کو قتل کيا اب ميري توبہ قبول ہوسکتي ہے؟

اس عابد نے جواب ديا اتنے ناحق قتل کے بعد تو بہ کا کيا سوال تو اس شخص نے اس عابد کو بھي قتل کر ديا اور سو قتل پورے کرلئے?

دوبارہ توبہ کي فکر لاحق ہوئي تو پھر لوگوں سے دريافت کيا کہ اس وقت روئے زمين ميں بڑا عالم کون ہے؟

پھر ان کو ايک عالم کا پتہ ديا گيا يہ شخص ان کے پاس گيا اور عرض کيا کہ ميں نے سو قتل کئے تو کيا ميري توبہ قبول ہو سکتي ہے؟

تو اس عالم نے جواب ديا ضرور توبہ قبول ہو سکتي ہے تمہارے اور توبہ کے درميان کيا چيز حائل ہے؟

يعني کوئي رکاوٹ نہيں توبہ کا دروازہ ہميشہ کھلا ہوا ہے?

پھر ايک نيک لوگوں کي بستي کي طرف اشارہ کرکے فرمايا کہ فلاں علاقے کي فلاں بستي ميں چلے جائيں وہاں نيک لوگ آباد ہيں جو اللہ تعالي کي عبادت ميں مشغول رہتے ہيں جاکر انھي کي عبادت ميں شريک ہو جائيں اور اپني بستي کي طرف لوٹ کر نہ آئيں، کيونکہ يہ بري جگہ ہے?

يہ شخص اس بستي ميں جانے کے ارادے سے اپنے گھر سے نکل پڑا? ٹھيک جب آدھا راستہ طے کرليا تو ملک الموت آپہنچا چونکہ اللہ تعالي کے نيک بندوں کي روح رحمت کے فرشتے قبض کرتے ہيں، جب کہ برے لوگ کي روہيں عذاب کے فرشتے قبض کرتےہيں اب اس شخص کي روح قبض کرنے کے بارے ميں دونوں قسم کے فرشتوں کي آپس ميں تکرار ہوئي?

رحمت کے فرشتوں کا کہنا تھا چونکہ يہ گناہوں سے تائب ہو کر خالص اللہ تعالي کي طرف متوجہ ہو کر آيا ہے اس کي روح قبض کرنے کا حق ہمارا ہے?

جبکہ عذاب کے فرشتوں کا کہنا تھا کہ اس نے تو کبھي کوئي نيکي نہيں کي يعني برا آدمي ہے لہذا اس کي روح قبض کرنے کا حق ہمارا ہے?

تو ان فرشتوں کے پاس ايک اور فرشتہ انساني روپ ميں حاضر ہوا دونوں فريق نے فيصلہ کيلئے ان کو مقرر کيا تو انہوں نے فيصلہ سنايا کہ?

جس برے گاؤں سے چل کر آيا ہے اور جس نيک لوگوں کي بستي کي طرف جا رہا ہے دونوں کے درميان فاصلہ کو ناپيں جس کي طرف قريب ہوگا اس طرف کے فرشتوں کو روح قبض کرنے کا حق ہوگا? چنانچہ زمين ناپي گئي تو جس بستي کا ارادہ تھا اس طرف قريب تھا لہذا رحمت کے فرشتوں نے روح قبض کرلي?

ايک دوسري روايت ميں ہے کہ نيک لوگوں کي بستي کي طرف صرف ايک بالشت ہي قريب تھا لہذا انہي ميں شمار کرليا گيا ايک اور روائيت ميں ہےکہ جب تکليف سے زمين پر گر پڑے تو لٹے ليٹے کھسکتے ہوئے کچھ اس بستي کي طرف ہوگئے يہي ان کے کام آگيا?

اس واقع سے ايک تو يہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالي کي رحمت سے کبھي مايوس نہيں ہونا چاھئيے بلکہ رحمت خداواندي کي اميد کرتے ھوئے گناہوں سے خوب توبہ کر ليني چاھئيے کيونکہ حديث ميں ہے موت کے وقت سے پہلے پہلے جو بھي توبہ کرے گا اس کي توبہ قبول ہوگي بلکہ اللہ تعالي کو بندے کي توبہ سے بڑي خوشي ہوتي ہے?

اس لئے انسان کو چاھئيے کہ جتنا بھي بڑا گناہ صادر ہو جائے تو احساس ہوتے ہي فورا رب کريم سے معافي مانگ لے اور آئندہ کيلئے گناہ کے قريب بھي نہ جائے?

دوسرا سبق يہ ملا کہ جس ماحول ميں رہ کر انسان گناہ ميں مبتلا ہو جائے اور آئندہ  کيلئے يہ خطرہ ہو کہ يہاں گناہوں سے بچنا مشل ہےتو اس جگہ کو چھوڑ دينا چاھئيے، کيونکہ جگہ اور ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے چناچہ حديث ميں آتا ہے کہ?

اللہ تعالي کے نزديک محبوب ترين جگيہں مسجديں ہيں اور مبغوض ترين جگہيں بازار ہيں?

يہي وجہ ہے کہ انسان مسجد کے ماحول ميں ہوتا ہے تو اس کيلئے عبادت آسان ہوتي ہے دل اس کانرم رہتا ہے اللہ کي طرف توجہ رہتي ہے فکر آخرت دامن گير رہتي ہے?

ليکن بازار کے ماحول ميں دل سخت ہوتا ہے گناہ کرنا آسان ہوتا ہے بلکہ اگر کوئي بچنا بھي چاہے اس کے لئے بھي بچنا مشکل ہوتا ہے اس لئے بازار ميں لڑائياں زيادہ ہوتي ہيں?

لہذا انسان کو چاہئيے برے ماحول سے بچے اچھے ماحول کو اپنائے بلا ضرورت اس ماحول ميں نہ جائے?

تيسرا سبق يہ ملتا ہے کہ ديني معاملات ميں رہمنمائي حاصل کرنے کيلئے صحيح العقيدہ ديندار عالم کي طرف رجوع کرنا چاھئيے، جس کسي کو علماء کي شکل ميں ديکھ ليا اس کو عالم سمجھ کر اس کا عقيدت مند ہوجانا، يہ کوئي عقلمندي نہيں ہے بلکہ پہلے اچھي طرح ديکھ لے کہ واقعاّ عالم ہے يا نہيں اس کے بعد اس سے رہنمائي حاصل کريں?

اللہ تعالي سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو واقعے سے سبق حاصل کرکے ہر قسم کے گناہون سے توبہ کي توفيق نصيب فرمائے برے ماحول سے بچائے اور نيک اور اچھا ماحول نصيب فرمائے،آمين?