عورتوں کے احکام
حیض فطرت کے مطابق ہر عورت کے لیے مخصوص ایام ہوتے ہیں جن میں وہ خون دیکھتی ہے۔ خون کی تین صورتیں ہیں حیض استحاضہ نفاس۔ حیض سرخ رنگ سیاہی مائل تیزی جلن اور حرارت رکھتا ہے جس کی مد ت کم از کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے(حسب العادت عموماً ۶۔۷ دن ہوتا ہے جوعورت کے مزاج پر موقوف ہے ۔ استحاضہ عام پور زرد رنگ پتلاٹھنڈا اور دباؤ ۔ جلن سوزش کے بغیر باہر آتاہے اس کی مقدار و مدت معین نہیں ہے۔ نفاس وقت زچگی خون کا آنا، یہ ایک منٹ کے لیے بھی ہو سکتاہے اس کی زیادہ سے زیادہ مدت دس دن اور عام طور پر حیض کی عادت کے مطابق ہوتا ہے ۔۔ ارشاد رب العزت ہے: وَیَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ہُوَ أَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِی الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ فَإِذَا تَطَہَّرْنَ فَأْتُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللہ إِنَّ اللہ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ ۔ وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجے یہ ایک گندگی ہے پس حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور وہ جب تک پاک نہ جائیں ان کے قریب نہ جاؤ پس جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس اس طریقہ سے جاؤ کہ جس طرح تمہیں اللہ نے حکم دیاہے ۔ بے شک اللہ توبہ کرنے والوں ہے اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتاہے ۔( سورہ بقرہ : ۲۲۲) ارشاد رب العزت ہے: نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ أَنّٰی شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِکُمْ وَاتَّقُوا اللہ وَاعْلَمُوْا أَنَّکُمْ مُلَا قُوہُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاونیز اپنے لئے نیک اعمال کو اگے بھیجو اور اللہ کے عذا ب سے بچو اور یاد رکھو تمہیں ایک دن اسکی بارگاہ میں جانا ہے ۔ اور اے رسول ایمانداروں کو(نجات کی) بشارت سنا دو ۔ (سورہ بقرہ ۲۲۳) اللہ نے عورت اور مرد کے درمیان کھیت اور کسان کا تعلق قراردیا ہے کسان کھیت میں تفریح سیر سیاحت کے لیے نہیں جاتا بلکہ اس لیے جاتاہے کہ پیدا وار حاصل کر ے نسل انسانی کے کسان کو انسانیت کی اس کھیتی میں نسل کیلیے جانا ہے نیز سابقہ آیت میں فرمان ہے کہ فأتو ھنمن حیث امرکم اللہ ان کے پاس اس طرح جاو ٴ جسں طرح اللہ نے حکم دیاہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتاہے کہ دبر میں وطی جائز نہیں اس سے اجتناب کیا جائے قدموا لاانفسکم وہ نسل چھوڑ جائیے جو آپکی آخرت کے لیے کام آئے وہ تربیت یافتہ ہو تاکہ آپ کو یادرکھے۔ ایلا ء میاں بیوی کے درمیان جدائی کے سلسلہ میں ایلاء وہ رسم ہے جو زمانہ جاہلیت میں عام تھی۔ ایلا کا مفہوم میاں بیوی والے تعلقات ترک کرنے کی قسم کھانا ہے۔جو انسان (میاں) اپنی بیوی سے ناراض ہوتا تو قسم کھا لیتا کہ میں جماع نہیں کروں گا۔ وہ اپنی بیوی کو اپنے اس غیر انسا نی سلوک سے ایک شدید عذاب میں مبتلا کر دیتا ،نہ رسمی طور پر طلاق دیتاہے نہ ہی اس کے قریب بھٹکتاہے ۔ ارشاد رب العزت ہے:وَلَا تَجْعَلُوا اللہ عُرْضَةً لِّأَیْمَانِکُمْ أَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ وَاللہ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ لاَ یُؤَاخِذُکُمْ اللہ بِاللَّغْوِ فِیْ أَیْمَانِکُمْ وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ وَاللہ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَائِہِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْہُرٍ فَإِنْ فَائُوْا فَإِنَّ اللہ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ ۔ اور اللہ کو اپنی ان قسموں کا نشانہ مت بناؤ جن سے نیکی کرنے تقویٰ اختیارکرنے او رلوگوں میں صلح و آشتی سے باز رہنا مقصود ہو اور اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے ۔ اللہ ان قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرتا جو تم بے توجہی سے کھاتے ہوہاں جو قسمیں سچے دل سے کھاتے ہو ان کا مواخذہ ہو گا اورا للہ خوب در گذ ر کرنے والابردبار ہے جولوگ اپنی عورتوں سے الگ رہنے کی قسم کھاتے ہیں ان کے لیے چار ما ہ کی مدت ہے اور اوراگر(اس دوران) رجوع کریں تو اللہ یقینا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔( سورہ بقرہ ۲۲۴۔۲۲۵۔۲۲۶) ایسے شخص کو چار ماہ کی مدت دی جائے گی قسم توڑلے اور تعلق قائم کرلے یا طلاق دے ڈالے ،تعلق روابط پیدا کرنے کی صورت میں کفارہ لازم ہے ۔جو کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلا نا یا دس مسکینوں کو لباس دینا ہے ۔