احتیاط، اجتہاد اور تقلید
س١: کیا تقلید صرف عقلی مسئلہ ہے یا اسکے ثبوت پر شرعی ادلہ بھی ہیں ؟
ج: تقلید کے ثبوت پر شرعی ادلہ ہیں اور عقل کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ جو شخص خود احکام دین سے آگاہ نہیں ہے وہ مجتہد جامع الشرائط کی طرف رجوع کرے۔
س٢:آپ کے نزدیک احتیاط پر عمل کرنا بہتر ہے یا تقلید پر؟
ج: چونکہ احتیاط پر عمل کرنا اسکے موارد اور کیفیت احتیاط کو جاننے پر موقوف ہے اور اس پر زیادہ وقت خرچ ہوتاہے لہذا انسان کیلئے احکام دین میںجامع الشرائط مجتہد کی تقلید کرنا بہتر ہے۔
س٣: احکام شرعیہ میں فقہا کے فتاویٰ کے لحاظ سے دائرہ احتیاط کی حدود کہاں تک ہیں ؟اور کیا سابق فقہاءکے فتاویٰ کی رعایت کرنا بھی ضروری ہے ؟
ج: موارد احتیاط میں احتیاط کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تمام فقہی احتمالات کی اس طریقے سے رعایت کی جائے کہ انسان کو اپنے بری الذمہ ہونے کا اطمینان ہوجائے۔
س٤: جلد ہی میری بیٹی بالغ ہونے والی ہے اور اس وقت اسے مرجع تقلید کا انتخاب کرنا ہو گا لیکن مسئلہ تقلید کا ادراک اس کیلئے مشکل ہے آپ فرمائیے اس سلسلہ میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
ج:اگر اس سلسلے میں وہ خود اپنی شرعی ذمہ داری کو نہیں سمجھ سکتی تو آپ کیلئے اسکی راہنمائی کرنا ضروری ہے ۔
س٥: فقہا کے درمیان مشہور یہ ہے کہ موضوعات احکام کی تشخیص مکلف کی ذمہ داری ہے مجتہد کی ذمہ داری صرف حکم کو بیان کرنا ہے لیکن اسکے باوجود مجتہدین بہت سے موارد میں موضوعات احکام کو بھی بیان کرتے ہیں تو کیا موضوع کے سلسلے میں بھی مجتہد کی پیروی کرنا ضروری ہے ؟
ج: موضوع کی تشخیص مکلّف کا کام ہے لہذا اس سلسلے میں مجتہد کی تشخیص کی پیروی کرنا واجب نہیں ہے مگر یہ کہ اس تشخیص سے انسان کو اطمینان ہوجائے یا موضوع ایسےموضوعات میں سے ہو کہ جس کی تشخیص کیلئے اجتہاد اور استنباط کی ضرورت ہے۔
س٦: کیا اپنی ضرورت والے شرعی مسائل کے سیکھنے میں کوتاہی کرنے والا گناہگار ہے ؟
ج:اگر شرعی مسائل کا نہ سیکھنا کسی واجب کے چھوٹ جانے یا فعل حرام کے ارتکاب کا سبب بنے تو گناہگار ہے ۔
س ٧: دینی مسائل سے کم واقفیت رکھنے والے افراد سے بعض اوقات جب انکی تقلید کے بارے میں پوچھا جاتاہے تو کہتے ہیں ہم نہیں جانتے یا کہتے ہیں ہم فلاں مجتہد کی تقلید کرتے ہیں جبکہ عملاً وہ لوگ اپنے آپ کو اس مجتہد کی توضیح المسائل کے پڑھنے اوراسکے فتاویٰ پر عمل کرنے کا پابند نہیں سمجھتے ایسے لوگوں کے اعمال کا حکم کیا ہے؟
ج:اگر انکے اعمال احتیاط، واقع یا اس مجتہد کے فتاویٰ کے مطابق ہوں جس کی تقلید ان پر واجب تھی تو صحیح ہیں
س٨: اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جن مسائل میں اعلم مجتہد احتیاطِ واجب کا قائل ہے ان میں اس کے بعد والے اعلم کی طرف رجوع کرسکتے ہیں اگر اس کے بعد والا اعلم بھی اس مسئلہ میں احتیاطِ واجب کا قائل ہو تو کیا ہم اس مسئلے میں ان دونوں سے بعد والے اعلم کی طرف رجوع کرسکتے ہیں ؟ اور اگر تیسرا بھی اس بات کا قائل ہو تو کیا ہم ان سے بعد والے اعلم کی طرف رجوع کرسکتے ہیں اور اسی طرح ۔۔۔ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیے؟
ج:جس مسئلہ میں اعلم مجتہد کا فتویٰ نہیں ہے اس میں اس مجتہد کی طرف رجوع کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے جس کا واضح فتویٰ موجود ہو اور وہ احتیاط کا قائل نہ ہو البتہ رجوع کرنے میں العالم فالعالم کی ترتیب کا خیال کرنا ضروری ہے ( یعنی پہلے اپنے مرجع کے بعد والے اعلم کی طرف رجوع کرے پھر اسکے بعد والے اعلم کی طرف اور پھر اسکے بعد والے اعلم کی طرف اور اسی طرح۔۔۔)