• صارفین کی تعداد :
  • 2847
  • 1/15/2008
  • تاريخ :

دين اہلبيت (ع) کے نزديک

غنچه لاله

202۔ ابوالجارود ! میں نے امام باقر (ع) سے عرض کیا ، فرزند رسول ۔! آپ کو تو معلوم ہے کہ میں آپ کا چاہنے والا ، صرف آپ سے وابستہ آپ کا غلام ہوں ؟ فرمایا ۔بیشک !

میں نے عرض کیا کہ مجھے ایک سوال کرنا ہے، امید ہے کہ آپ جواب عنایت فرمادیں گے ، اس لئے کہ میں نابیناہوں، بہت کم چل سکتاہوں اور بار بارآپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتاہوں، فرمایا بتاؤ کیا کام ہے؟ میں نے عرض کی آپ اس دین سے باخبر کریں جس سے آپ اور آپ کے گھر والے اللہ کی اطاعت کرتے ہیں تا کہ ہم بھی اس کو اختیار کرسکیں۔

فرمایا کہ تم نے سوال بہت مختصر کیا ہے مگر بڑا عظیم سوال کیا ہے خیر میں تمھیں اپنے اور اپنے گھر والوں کے مکمل دین سے آگاہ کئے دیتاہوں دیکھو یہ دین ہے توحید الہی، رسالت رسول اللہ ان کے تمام لائے ہوئے احکام کا اقرار ہمارے اولیاء سے محبت ہمارے دشمنوں سے عداوت ، ہمارے امر کے سامنے سراپا تسلیم ہوجانا ، ہمارا قائم کا انتظار کرنا اور اس راہ میں احتیاط کے ساتھ کوشش کرنا ۔( کافی 1 ص 21 /10۔

203۔ ابوبصیر ! میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ سے سلام نے عرض کیا کہ خیثمہ بن ابی خیثمہ نے ہم سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے آپ سے اسلام کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ جس نے بھی ہمارے قبلہ کا رخ کیا ، ہماری شہادت کے مطابق گواہی دی، ہماری عبادتوں جیسی عبادت کی ، ہمارے دوستوں سے حبت کی ، ہمارے دشمنوں سے نفرت کی وہ مسلمان ہے۔

فرمایا خیثمہ نے بالکل صحیح بیان کیا ہے… میں نے عرض کی اور ایمان کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ خدا پر ایمان، اس کی کتاب کی تصدیق اور ان کی نافرمانی نہ کرنا ہی ایمان ہے۔ فرمایا بیشک خیثمہ نے سچ بیان کیا ہے۔( کافی 2 ص 38 /5)۔

204۔ علی بن حمزہ نے ابوبصیر سے روایت کی ہے کہ میں نے ابوبصیر کو امام صادق (ع) سے سوال کرتے سنا کہ حضور میں آپ پر قربان، یہ تو فرمائیں کہ وہ دین کیا ہے جسے پروردگار نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے اور اس سے ناواقفیت کو معاف نہیں کیا ہے اور نہ اس کے علاوہ کوئی دین قبول کیاہے؟

فرمایا ، دوبارہ سوال کرو …انھوں نے دوبارہ سوال کو دہرایا تو فرمایا لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ کی شہادت نماز کا قیام، زکٰوة کو ادائیگی، حج بیت اللہ استطاعت کے بعد ، ماہ رمضان کے روزہ۔

یہ کہہ کر آپ خاموش ہوگئے اور پھر دو مرتبہ فرمایا ولایت ، ولایت ( کافی 2 ص22 /11)۔

205۔ عمرو بن حریث 1 میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا جب آپ اپنے بھائی عبداللہ بن محمد کے گھر پر تھے، میں نے عرض کیا کہ میں آپ پر قربان ! یہاں کیوں تشریف لے آئے؟ فرمایا ذرا لوگوں سے دور سکون کے ساتھ رہنے کے لئے۔

میں نے عرض کی میں آپ پر قربان کیا میں اپنا دین آپ سے بیان کرسکتاہوں، فرمایا بیان کرو۔

میں نے کہا کہ میرا دین یہ ہے کہ میں لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ کلمہ پڑھتاہوں اور گواہی دیتاہوں کہ قیامت آنے والی ہے، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے، اور پروردگار سب کو قبروں سے نکالے گا، اور یہ کہ نماز کا قیام، زکٰوة کی ادائیگی، ماہ رمضان کے روزے، حج بیت اللہ ، رسول اکرم کے بعد حضرت علی (ع) کی ولایت، ان کے بعد امام حسن (ع) ،امام حسین (ع) ، امام علی (ع) بن الحسین (ع) ، امام محمد (ع) بن علی (ع) اور پھر آپ کی ولایت ضروری ہے، آپ ہی حضرات ہمارے امام ہیں، اسی عقیدہ پر جینا ہے اور اسی پر مرناہے اور اسی کو لے کر خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوناہے۔

فرمایا واللہ یہی دین میرا اور میرے آباء و اجداد کا ہے جسے ہم علی الاعلان اور پوشیدہ ہر منزل پر اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔( کافی 1 ص 23 /14)۔

206۔ معاذ بن مسلم ! میں اپنے بھائی عمر کو لے کر امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہو اور میں نے عرض کی کہ یہ میرا بھائی عمر ہے، یہ آپ کی زبان مبارک سے کچھ سننا چاہتاہے، فرمایا دریافت کروکیا دریافت کرناہے۔

کہا کہ وہ دین بتادیجیئے جس کے علاوہ کچھ قابل قبول نہ ہو اور جس سے ناواقفیت میں انسان معذور نہ ہو، فرمایا لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کی گواہی ، پانچ نمازیں ، ماہ رمضان کے روزے ، غسل جنابت ، حج بیت اللہ ، جملہ احکام الہی کا اقرار اور ائمہ آل محمد کی اقتداء …!

عمر نے کہا کہ حضور ان سب کے نام بھی بتادیجئے ؟ فرمایا امیر المومنین (ع) علی (ع)، حسن (ع) ، حسین (ع) ، علی بن الحسین (ع) ، محمد (ع) بن علی (ع) ، اور یہ خیر خدا جسے چاہتا ہے عطا کردیتاہے۔

عرض کی کہ آپ کا مقام کیاہے؟ فرمایا کہ یہ امر امامت ہمارے اول و آخر سب کے لئے جاری و ساری ہے۔( محاسن 1 ص 450 /1037 ، شرح الاخبار 1 ص 224 /209 ، اس روایت میں غسل جنابت کے بجائے طہارت کا ذکر ہے)۔

207۔ روایت میں وارد ہواہے کہ مامون نے فضل بن سہل ذوالریاستیں کو امام رضا کی خدمت میں روانہ کیا اور اس نے کہا کہ میں چاہتاہوں کہ آپ حلال و حرام ، فرائض و سنن سب کو ایک مقام پر جامع طور پر پیش کردیں کہ آپ مخلوقات پر پروردرگار کی حجت اور علم کا معدن ہیں۔

 

تمشک

آپ نے قلم و کاغذ طلب فرمایا اور فضل سے فرمایا کہ لکھو ہمارے لئے یہ کافی ہے کہ ہم اس بات کی شہادت دیں کہ خدا کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے، وہ احدہے ، صمد ہے، اس کی کوئی زوجہ یا اولاد نہیں ہے وہ قیوم ہے، سمیع و بصیر ہے، قوی و قائم ہے، باقی اور نور ہے، عالم ہر شے اور قادر علیٰ کل شی ہے۔ ایسا غنی جو محتاج نہیں ہوتاہے اور ایسا عادل جو ظلم نہیں کرتاہے، ہر شے کا خالق ہے، اس کا کوئی مثل نہیں ہے، اس کی شبیہ و نظیر اور ضد یا مثل نہیں ہے اور اس کا کوئی ہمسر بھی نہیں ہے۔

پھر اس بات کی گواہی دیں کہ محمد (ع) اس کے بندہ ، رسول ، امین ، منتخب روزگار، سید المرسلین، خاتم النبییّن ، افضل العالمین ہیں، اس کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، ان کے نظام شریعت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے، وہ جو کچھ خدا کی طرف سے لے کر آئے میں سب حق ہے ، ہم سب کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کے پہلے کے انبیاء و مرسلین اور حجج الہیہ کی تصدیق کرتے ہیں، اس کی کتاب صادق کی بھی تصدیق کرتے ہیں جہاں تک باطل کا گذر نہ سامنے سے ہے اور نہ پیچھے سے، وہ خدائے حکیم و حمید کی تنزیل ہے۔( فصلت 42)۔

یہ کتاب تمام کتابوں کی محافظ اور اول سے آخر تک حق ہے، ہم اس کے محکم و متشابہ ، خاص و عام ، وعد و وعید، ناسخ و منسوخ، اور اخبار سب پر ایمان رکھتے ہیں، کوئی شخص بھی اس کا مثل و نظیر نہیں لاسکتاہے۔

اور اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ رسول اکرم کے بعد دلیل اور حجت خدا، امور مسلمین کے ذمہ دار، قرآن کے ترجمان، احکام الہیہ کے عالم ان کے بھائی ، خلیفہ ، وصی ، صاحب منزلت ہارون علی (ع) بن ابیطالب امیر المومنین ، امام المتقیم ، قائد لغراالمحجلین، یعسوب المومنین ، افضل الوصیین ہیں اور ان کے بعد حسن (ع) و حسین (ع) ہیں اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے، یہ سب عترت رسول اور اعلم بالکتاب و السنة ہیں۔

سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے اور ہر زمانہ میں امامت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں، یہی عروة الوثقیٰ ہیں اور یہی ائمہ ہدی میں اور یہی اہل دنیا پر حجت پروردگار ہیں، یہاں تک کہ زمین اور اہل زمین کی وراثت خدا تک پہنچ جائے کہ وہی کائنات کا وارث و مالک ہے اور جس نے بھی ان حضرات سے اختلاف کیا وہ گمراہ اورگمراہ کن ہے، حق کو چھوڑنے والا اور ہدایت سے الگ ہوجانے والا ہے، یہی قرآن کی تعبیر کرنے والے اور اس کے ترجمان ہیں، جو ان کی معرفت کے بغیر اور نام بنام ان کی محبت کے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتاہے۔( تحف العقول ص 415)۔

208۔عبدالعظیم بن عبداللہ الحسنئ کا بیان ہے کہ میں امام علی نقی (ع) بن محمد (ع) بن علی (ع) بن موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) بن محمد (ع) بن علی (ع) بن الحسین (ع) بن علی (ع) بن ابی طالب (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر مرحبا کہا اور فرمایا کہ تم ہمارے حقیقی دوست ہو۔

میں نے عرض کی کہ حضور میں آپ کے سامنے اپنا پورا دین پیش کرنا چاہتاہوں کہ اگر صحیح ہے تو میں اسی پر قائم رہوں ؟

آپ نے فرمایا ضرور ۔!

میں نے کہا کہ میں اس بات کا قائل ہوں کہ خدا ایک ہے، اس کا کوئی مثل نہیں ہے ، وہ ابطال اور تشبیہ دونوں حدودں سے باہر ہے، نہ جسم ہے نہ صورت ، نہ عرض ہے نہ جوہر، تمام اجسام کو جسمیت دینے والا اور تمام صورتوں کا صورت گر ہے، عرض و جوہر دونوں کا خالق ہر شے کا پرورگار ، مالک ، بنانے والا اور ایجاد کرنے والا ہے۔

حضرت محمد اس کے بندہ ، رسول اور خاتم النبیین ہیں ، ان کے بعد قیامت تک کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور ان کی شریعت بھی آخری شریعت ہے جس کے بعد کوئی شریعت نہیں ہے۔

اور امام و خلیفہ و ولی امر آپ کے بعد امیر المومنین (ع) علی ابن ابی طالب ہیں۔ اس کے بعد امام حسن (ع) ، پھر امام حسین (ع) پھر علی بن الحسین (ع) پھر محمد بن علی (ع) پھر جعفر بن محمد(ع) ، پھر موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) ، پھر علی (ع) بن موسیٰ (ع) ، پھر اس کے بعد آپ !۔

حضرت نے فرمایا کہ میرے بعد میرا فرزند حسن (ع) اور اس کے بعد ان کے نائب کے بارے میں لوگوں کا کیا حال ہوگا؟

میں نے عرض کی کیوں ؟ فرمایا اس لئے کہ وہ نظر نہ آئے گا اور اس کا نام لینا بھی جائز نہ ہوگا یہاں تک کہ منظر عام پر آجائے اور زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھردیگا جس طرح ظلم و جور سے بھری ہوگی ۔

میں نے عرض کی حضور میں نے اس کا بھی اقرار کرلیا اور اب یہ بھی کہتاہوں کہ جو ان کا دوست ہے وہی اپنا دوست ہے اور جو ان کا دشمن ہے وہی اپنا بھی دشمن ہے، ان کی اطاعت اطاعت خدا اور ان کی معصیت معصیت خدا ہے۔

اور میرا عقیدہ یہ بھی ہے کہ معراج حق ہے اور قبر کا سوال بھی حق ہے اور جنت و جہنم بھی حق ہے اور صراط و میزان بھی حق ہے اور قیامت بھی یقیناً آنے والی ہے اور خدا سب کو قبروں سے نکالنے والا ہے۔

اور میرا کہنا یہ بھی ہے کہ ولایت اہلبیت (ع) کے بعد فرائض میں نماز۔

زکوة، روزہ، حج، جہاد، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر سب شامل ہیں، حضرت نے فرمایا اے ابوالقاسم ! خدا کی قسم یہی وہ دین ہے جسے خدا نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایاہے اور تم اس پر قائم رہو، پروردگار تمھیں دنیا و آخرت میں اس پر ثابت قدم رکھے۔( امالی (ر) صدوق 278 / 24 ، التوحید 81 / 37 ، کمال الدین 379 ، روضة الواعظین ص 39 ، کفایة الاثر ص 282 ، ملاحظہ ہو صفات الشیعہ 127 / 68)۔