• صارفین کی تعداد :
  • 3597
  • 1/15/2008
  • تاريخ :

حسن معاشرت

 

طبیعت

311۔ رسول اکرم (ص)، جس کے ساتھ رہو اس سے اچھا سلوک کرو تا کہ مسلمان کہے جاسکو۔(امالی صدوق (ر) 168 /13، امالی مفید (ر) 350 /1 مناقب الامام امیر المومنین (ع) الکوفی 2 ص 276 / 744 روایت اسماعیل بن ابی زیاد عن الصادق (ع) ، روضة الواعظین ص 474 ، مشکٰوة الانوار ص 68)۔

312۔ امام علی (ع) ! وقت آخر اولاد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا، دیکھو لوگوں کیساتھ اس طرح معاشرت کرو کہ غائب ہوجاؤ تو تلاش کریں اور مرجاؤ تو گریہ کریں (اعلام الدین ص 215 ، تنبیہ الخواطر 2 ص 75)۔

313۔ امام علی (ع) ! اپنے بھائی کے لئے جان و مال دیدو، دشمن کو عدل و انصاف دو، اور عام لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔ ( تحف العقول ص 212)۔

314۔ امام علی (ع) اپنے دوست کو نصیحت کرو ، جان پہچان والوں کی مدد کرو اور عام لوگوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آؤ ۔( غرر الحکم 2466)۔

315۔امام صادق (ع) ! منافق کے ساتھ زبان سے احسان کرو، مومن کے ساتھ دل سے محبت کرو اور اگر یہودی کا ساتھ ہوجائے جب بھی حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو ۔( الفقیہ 4 ص 404 / 5872 ، امالی صدوق 502 / 8، اختصاص ص 230 روایت اسحاق بن عمار، امالی مفید 58/10) الزہد للحسین بن سعید 22 ص 49 روایت سعد بن طریف عن الباقر (ع) تحف العقول ص 292 عن الباقر (ع) ، مشکوة الانوار ص 82)۔

316۔ امام صادق (ع) ! کوفہ سے آئی ہوئی ایک جماعت کو رخصت کرتے ہوئے فرمایا ، میں تمھین نصیحت کرتاہوں کہ تقویٰ الہی اختیار کرو اس کی اطاعت کرو ، معصیت سے پرہیز کرو ، جو امانت رکھے اس کی امانت کو واپس کرو، جس کے ساتھ بیٹھ جاؤ اچھی معاشرت کرو، ہمارے حق میں خاموش داعی بنو۔

ان لوگوں نے عرض کی کہ حضور خاموش رہیں گے تو دعوت کیسے دیں گے ، فرمایا کہ ہم نے جس اطاعت خدا کا حکم دیا ہے اس پر عمل کرو اور جس معصیت سے روک دیا ہے اس سے روک جاؤ ، لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کرو ، امانتوں کو واپس کرو ، نیکیوں کا حکم دو، برائیوں سے روکو، لوگ تمھارے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ نہ جانیں، جب لوگ یہ صورت حال دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ فلاں کی جماعت ہے، خدا اس کے قائد پر رحمت کرے کس قدر حسین ادب سکھایاہے اور اس طرح ہمارے فضل و شرف کو پہچان لیں گے اور ہماری طرف دوڑ کر آجائیں گے ، میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ میرے پدر بزرگوار ( ان پر اللہ کی رحمت و برکت و مرضات) فرمایا کرتے تھے کہ ایک زمانہ تھا ، جب ہمارے دوست اور ہمارے شیعہ بہترین افراد تھے کہ اگر مسجد کا امام ہوتا تھا تو انھیں میں سے اگر قبیلہ کا موذن ہوتا تھا تو انھیں میں سے اگر کسی کے پاس امانتیں رکھوائی جاتی تھیں تو انھیں میں سے ، اگر کوئی امانت دار ہوتا تھا تو انھیں میں سے ، اگر کوئی عالم و مبلغ ہوتاتھا تو انھیں میں سے ۔ اب تمھارا فرض ہے کہ تم بھی ایسے ہی ہوجاؤ اور لوگوں کے درمیان ہمیں محبوب بناؤ لوگوں کو ہم سے بیزار نہ بناؤ ( دعائم الاسلام 1 ص 56)۔

317۔ امام عسکری نے اپنے شیعوں سے فرمایا کہ میں تمھیں تقوی الہی ، دین میں احتیاط ، عمل میں جد و جہد ، گفتگو میں صداقت ، امانت میں واپسی ( چاہے صاحب امانت نیک ہویا فاسق و فاجر) سجدوں میں طول اور ہمسایہ کے ساتھ اچھے برتاؤ کی وصیت کرتاہوں یہی وہ دین ہے جو پیغمبر اسلام لے کر آئے تھے، قبیلہ والوں کے ساتھ نماز پڑھو، ان کے جنازوں کی مشایعت کو ، ان کے مریضوں کی عیادت کرو، ان کے حقوق کو ادا کرو کہ جب تمھارا کوئی شخص دین میں محتاط ہوگا ، باتوں میں سچا ہوگا ، امانت کو ادا کرے گا ، لوگوں سے اچھے برتاؤ کرے گا تو کہا جائے گا کہ یہ شیعہ ہے اور اس طرح مجھے مسرت ہوگی ، دیکھو اللہ سے ڈرو ، ہمارے واسطے زینت بنو، باعث عیب نہ بنو، ہماری طرف مودتوں کو کھینچ کر لے آؤ اور ہم سے ہر برائی کو دور رکھو ہمارے بارے میں جو بھی اچھی بات کہی جائے گی ہم اس کے اہل ہوں گے اور جو بری بات کہی جائے گی ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، ہمارا کتاب خدا میں ایک حق اور رسول خدا سے ایک قرابت ہے، ہم صاحبان تطہیر ہیں، ہمارے علاوہ جو اس بات کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا ہوگا، اللہ کا ذکر زیادہ کرو، موت کو برابر یاد رکھو، تلاوت قرآن کرتے رہو، صلوات پڑھتے رہو کہ صلوات دس نیکیوں کے برابر شمار ہوتی ہے، میری وصیتوں کو یاد رکھنا ، میں تمھیں خدا کے سپرد کرتاہوں ۔ والسلام ( تحف العقول ص 487)۔