ورثہ علوم انبیاء
145۔ رسول اکرم ، روئے زمین پر پہلے وصی جناب ہبة اللہ بن آدم (ع) تھے، اس کے بعد کوئی نبی ایسا نہیں تھا جس کا کوئی وصی نہ رہاہو، جبکہ انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی اور ان میں سے پانچ اولوالعزم تھے نوح (ع) ، ابراہیم (ع) ، موسی ٰ (ع) ، عیسیٰ (ع) ، محمد ۔
علی بن ابی طالب حضرت محمد(ص) کے لئے ہبة اللہ تھے اور انھیں تمام اوصیاء اور سابق کے اولیاء کا ورثہ ملا تھا جس طرح کہ محمد (ص) تمام انبیاء کرام کے وارث ہیں ۔( کافی 1 ص 224 / 2 از عبدالرحمٰان بن کثیر ، بصائر الدرجات 121/1 ، عبدالرحمان بن کبیر ، اعلام الدین ص 464)۔
146۔ امام علی (ع) ! آگاہ ہوجاؤ کہ جو علوم لے کر آدم (ع) آئے تھے اور جس کے ذریعہ تمام انبیاء کو فضیلت حاصل ہوئی ہے سب کے سب خاتم النبیین کی عترت میں پائے جاتے ہیں تو آخر تم لوگ کدھر بہک رہے ہو اور کدھر چلے جارہے ہو؟ (ارشاد 1 ص 232 ، تفسیر عیاشی 1 ص 102 / 300 ا ز مسعدہ بن صدقہ تفسیر قمی 2 ص 367 از ابن اذینہ)۔
147۔ امام صادق (ع) ! ہم سب انبیاء کے وارث ہیں، رسول اکرم نے حضرت علی (ع) کو زیر کساء لے کر ایک ہزار کلمات کی تعلیم دی اور ان پر ہر کلمہ سے ہزار کلمات روشن ہوگئے ۔ ( خصال ص 651 / 49 از ذریح المحاربی )۔
148۔امام باقر (ع)! آدم (ع) جو علم لے کر آئے تھے وہ واپس نہیں گیا بلکہ یہیں اس کی وراثت چلتی رہی اور حضرت علی (ع) اس امت کے عالم تھے اور ہم میں سے کوئی عالم دنیا سے نہیں جاتاہے مگر یہ کہ اپنا جیسا عالم چھوڑ کر جاتاہے یا جیسا خدا چاہتاہے۔( کافی 1 ص 222/ 2 از زرارہ و فضیل ، کمال الدین 223 / 14 از فضیل )۔
کمال الدین میں یہ اضافہ بھی ہے کہ علم وراثت میں چلتا رہتاہے اور جو علم یا جو آثار انبیاء و مرسلین اس گھر کے باہر سے حاصل ہوں ، وہ سب باطل ہیں ۔!
149۔ امام باقر (ع) ! ایھا النّاس ۔ تمھارے پیغمبر کے اہلبیت (ع) کو پروردگار نے اپنی کرامت سے مشرف کیاہے اور اپنی ہدایت سے معزز بنادیاہے، اپنے دین کے لئے مخصوص کیا ہے اور اپنے علم سے فضیلت عطا کی ہے پھر اپنے علم کا محافظ اور امین قرار دیاہے۔
اہلبیت (ع) امام ، داعی دین ، قائد، ہادی ، حاکم، قاضی ، ستارہ ٴ ہدایت، اسوہٴ حسنہ، عترت طاہرہ، امت وسط ، صراط واضح ، سبیل مستقیم ، زینت نجباء اور ورثہ انبیاء ہیں،۔( تفسیر فرات کوفی ص 337 ، 460 از فضل بن یوسف القصبانی )۔
150۔ابوبصیر ! میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کیا آپ حضرات رسول اکرم کے وارث ہیں؟ فرمایا بیشک میں نے عرض کی کہ رسول اکرم تو تمام انبیاء کے وارث اور ان کے علوم کے عالم تھے؟ فرمایا بیشک ( ہم بھی ایسے ہی ہی ) ( کافی 1 ص 47 / 3 ، رجال کشی 1 ص 408 / 298 ، بصائر الدرجات 269 / 1 ، دلائل الامامہ 226 / 153 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 184 ، الخرائج والجرائح 2 ص 711 / 8 فصول مہمہ ص 215 ۔
151۔ امام صادق ! حضرت علی عالم تھے اور علم ان کی وراثت میں چلتارہتاہے کہ جب کوئی عالم مرتاہے تو اس کے بعد اسی علم کا وارث آجاتاہے یا جو خدا چاہتاہے-( کافی 1 ص 221 /1 ، علل الشرائع ص 591 / 40 ، بصائر الدرجات 118 / 2 ، الامامة والتبصرہ ص 225 / 75 از محمد بن مسلم کمال الدین 223 / 13)۔
152۔ امام صادق (ع)! جو علم حضرت آدم (ع) کے ساتھ آیاتھا وہ واپس نہیں گیا اور کوئی بھی عالم مرتاہے تو اس کے علم کا ورث موجود رہتاہے ، یہ زمین کسی وقت بھی عالم سے خالی نہیں ہوتی ۔( کافی 1 ص 223 / 8 کمال الدین 224 / 19، بصائر الدرجات 116 / 9 از حارث بن المغیرہ)۔
153۔ ضریس کناسی ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تا اور ابوبصیر بھی موجود تھے کہ حضرت نے فرمایا کہ داؤد علوم انبیاء کے وارث تھے اور ہم حضرت محمد کے وارث ہیں ، ہمارے پاس حضرت ابراہیم (ع) کے صحیفے اور حضرت موسیٰ (ع) کی تختیاں سب موجود ہیں ۔
154۔ ابوبصیر نے عرض کی کہ حضور یہ تو واقعی علم ہے، فرمایا یہ علم نہیں ہے، علم وہ جو روز و شب روزانہ اور ساعت بہ ساعت تازہ ہوتا رہتا ہے۔( کافی 1 ص 225 /4،بصائر الدرجات 135/1)۔
155۔ امام ہادی ! در زیارت جامعہ، سلام ہو ائمہ ہدیٰ پر چو تاریکیوں کے چراغ ہدایت ، علم ، صاحبان عقل ، ارباب فکر ، پناہ گاہ خلائق ، ورثہ انبیاء، مثل اعلیٰ ، دعوتِ خیر اور دنیا و آخرت سب پر اللہ کی حجت ہیں اور انھیں پر رحمت و برکات ہوں ۔( تہذیب 6 ص 96 / 177)۔