وفا و عہد
فرزند! خدا تمہارے بارے میں عہد محبت کو پورا کرے۔ جب بھی کسی شے کا وعدہ کرو تو اسے وفا ضرور کرو۔ کتاب و سنت میں اس کی بے حد تاکید وارد ہوئی ہے۔ ارشاد احدیت ہوتا ہے ’’عہد کو پورا کرو کہ اس کے بارے میں روز قیامت سوال ہوگا۔
٭ مرسل اعظم -ص- کا ارشاد ہے کہ جس سخص کا بھی خدا اور آخرت پر ایمان ہے اس کا فرض ہے کہ وعدہ کو وفا کرے۔
٭ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ مومن کا مومن سے وعدہ ایک ایسی نذر ہے جس کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔ لہٰذا جو شخص بھی وعدہ کی خلاف ورزی کرے گا وہ حکم خدا کی مخالفت کرے گا اور اس کی ناراضگی کا حقدار ہوگا۔
٭ وفاء عہد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پروردگار عالم نے اسے جناب اسماعیل علیہ السلام کے اوصاف و کمالات میں شمار کیا ہے اور مومنین کو وعدہ کی خلاف ورزی پر سخت تنبیہ کی ہے کہ خبردار جو کرنا نہ ہو اسے کہنا بھی نہیں۔ پروردگار کو یہ بات سخت ناپسند ہے۔
٭ جناب اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں روایت ہے کہ ایک شخص سے انتظار کرنے کا وعدہ کر لیا تھا اور وہ جاکر بھول گیا تو آپ ایک سال تک اسی مقام پر کھڑے رہے۔ یہاں تک کہ شدت تمازتِ آفتاب میں بھی جگہ نہیں چھوڑی کہ کہیں وعدہ کی خلاف ورزی نہ ہو جائے۔ درختوں کے پتے چباتے رہے لیکن وعدہ پر قائم رہے۔
فرزند! ایفائے وعدہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا طریقہ اختیار کرو اور اگر ایسانہ کر سکو تو اس کے قریب تر رہنے کی کوشش کرو۔
خبردار جس وعدہ کے وفا کرنے کی طاقت نہ ہو اس کا وعدہ نہ کرنا۔ خلف وعدہ سے انسان بدنام ہو جاتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
نعم سے پہلے ہی لا کہہ دے یہ ہے طرزِ حسن
کہ لا ہو بعد نعم یہ ہے غیر مستحسن
(جوادی)