خدا وند متعال پرتوکل رنج و غم کو دور کر دیتا ہے
فرزند! خدا تمہیں دنیا و آخرت کی نیکی عطا کرے۔ اپنے تمام امور میں خدا پر اعتماد کرو۔ تمام امور کی رفتار اسی کے ہاتھ میں ہے اور سب کچھ اسی کے فیصلے سے ہوتا ہے۔ توکل سے انسان رنج و غم سے نجات پا جاتا ہے اور بیجا کوشش نہیں کرتا۔ یاد رکھو کہ کوشش اور مقصد کبھی مل جاتے ہیں اور کبھی الگ ہو جاتے ہیں تو اگر توکل نہ ہوگا تو جب بھی جدا ہو جائیں گے صدمہ ہوگا ورنہ جب بھی حاصل ہو جائے گا خوشی ہوگی اور نہ ملا تو سعی رائگاں کا صدمہ نہ ہوگا۔ قرآن میں ہمیشہ اسباب پر نگاہ رکھنے کو شرک سے تعبیر کیا گیا ہے.
لہٰذا اپنے تمام معاملات میں خدائے لطیف و خبیر مالک قضا و تقدیر پر بھروسہ کرو اور اسباب ظاہری پر اعتماد کرنا چھوڑ دو۔ اسباب کی اہمیت ایک مچھر کے برابر بھی نہیں ہے۔
خبردار! عالم اسباب کے نام پر یہ دھوکہ نہ کھا جانا کہ انسان کی نگاہ اسباب پر ہونی چاہئے یہ وسوسہ شیطانی ہے۔ عالم اسباب کے معنی فقط یہ ہیں کہ اشیاء کا وجود اسباب سے ہوگا نہ کہ بندہ کا اعتماد اسباب پر ہونا چاہئے۔ بندہ کا اعتماد تو خدا ہی پر ہونا چاہئے۔ وہ جب چاہے گا تو اسباب بھی پیدا کر دے گا۔
فرزند! تمہیں طلبِ رزق کے اوامر سے بھی دھوکہ نہ ہو جائے کہ انسان کو ہر وقت روزی کے لئے رواں دواں رہنا چاہئے اس لئے کہ یہ اوامر فقط تنظیم عالم کے لئے ہیں ورنہ عطائے خداوندی تمہاری طلب کی پابند نہیں ہے۔ اللہ پر اعتماد کرو اسباب کا کام مسبب الاسباب کے حوالے کر دو وہ خود اسباب پیدا کر کے روزی فراہم کر دے گا۔ البتہ طالب علم کے علاوہ ہر شخص کو بقدرِ ضرورت محنت کرنی چاہئے کہ تجربہ یہی ہے کہ جن لوگوں نے اسباب کا کام بھی خدا کے حوالے کر دیا ہے اور صرف اپنے فرائض پر عمل کرتے رہے وہ زیادہ بہتر حالت میں رہے ہیں اور جنہوں نے معرفت کے باوجود اسباب پر اعتماد کیا ہے انہیں نقصان ہوا ہے جس طرح کہ جناب یوسف علیہ السلام نے حاکم مصر سے کہا کہ مجھے خزانوں کا امین بنا دے تو خدا نے مدت امتحان ایک سال بڑھا دی ورنہ بندے کے بجائے خدا سے کہا ہوتا تو فوراً نجات مل جاتی یا جب قید خانہ کے ساتھی سے کہا کہ اپنے مالک سے میری بھی شفارش کر دینا تو اللہ نے قید کی مدت میں سات سال کا اضافہ کر دیا کہ میرے غیر سے کیوں کہا ورنہ براہ راست پروردگار سے کہا ہوتا تو فوراً نجات مل جاتی۔ پروردگار نے اس ترک اولیٰ پر تنبیہ کی تم نے بندہ کے ذریعہ بندہ سے کہلوایا جبکہ دونوںمیرے قبضہ میں ہیں۔ مجھ سے کیوں نہیں کہا جبکہ میں مالک الملوک ہوں۔ اسکے بعد جبرئیل امین کو بھیجا گیا اور انہوں نے پوچھا کہ کب تک قید میں رہنے کا ارادہ ہے تو کہا جب تک خدا چاہے تو جب انہوں نے ہمارا حوالہ دیا تو ہم نے دعائے توسل کے ذریعہ انہیں نجات دلوا دی۔
یہی حال جناب یعقوب علیہ السلام کا ہوا کہ انہوں نے عزیز مصر سے شکایت کی تو پروردگار نے اس وقت تک نجات نہیں دلائی جب تک اس سے رجوع نہیں کی کہ اولیاء کے لئے یہ باتیں ترکِ اولیٰ کا مرتبہ رکھتی ہیں۔
میرے فرزند! خبردار، اپنی حاجت کو غیر خدا سے بیان نہ کرنا جو کہنا ہے خدا سے کہنا وہی مالک و مہربان ہے۔ اسی نے ابراہیم علیہ السلام کو صرف اس بات پر خلیل بنا دیا کہ انہوں نے اس کے علاوہ کسی سے نہیں مانگا۔
مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ تمام خیر کا مرکز و مصدر یہ ہے کہ لوگوں کے ہاتھوں سے امید منقطع کر کے خدا سے لو لگائے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی ہر دعا قبول ہو جائے اسے چاہئے کہ بندوں سے امید قطع کر کے صرف خدا سے امیدیں وابستہ کرے۔ جب خداوند عالم یہ کیفیت دیکھ لے گا تو فوراً مراد پوری کر دیگا۔
اس سلسلے میں امام سجاد علیہ السلام کی صحیفۂ سجادیہ کی تیرہویں دعا کا مطالعہ نہایت درجہ مناسب رہے گا جس میں اسباب کی حقیقت کا اظہار کر کے خدا سے مانگنے کا سلیقہ سکھایا گیا ہے