صابرین کا مقام بہشت میں ہے
فرزند! خدا تمہیں ہر طرح کا صبر عنایت کرے۔ یاد رکھو کہ صبر کی قوت چند باتوں کے لحاظ سے پیدا ہوتی ہے:
1. انسان صابرین کے اجر و ثواب پر نگاہ رکھے کہ روایات میں صابرین کے واسطے جنت میں جانے کا ذکر ہے۔
٭ صبر کرنے والے کے لئے ہمیشہ روزہ رکھنے والے اور تمام زندگی نماز قائم کرنے والے کا ثواب ہے۔ صابر کو پیغمبر اسلام صلی علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جہاد میں شہید ہونے کا ثواب ملتا ہے۔
٭ فاقہ پر صبر جہاد کا رتبہ رکھتا ہے اور یہ ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔
٭ جو مومن کسی بلاء پر صبر کرے اسے ہزار شہیدوں کا اجر ملتا ہے
2 ان مراتب پر نگاہ رکھے جو تجربہ کی بنیاد پر صابرین کے لئے مشاہدہ میں آئے ہیں۔
3. یہ خیال کرے کہ مصیبت چند لمحوں کے بعد ختم ہو جائے گی اور زندگی بہر حال فانی ہے جو ساعت گزر جاتی ہے اس کی راحت و تکلیف دونوں ختم ہو جاتی ہیں آنے والی ساعت کا حال یوں بھی کسی کو نہیں معلوم ہے۔
4. اس بات پر غور کرے کہ اس آہ و فریاد کا کوئی اثر بھی نہیں ہے۔ مقدر میں جو ہے وہ ہو کر رہے گا۔ صرف نالہ و فریاد سے اجر و ثواب میں کمی ہو سکتی ہے۔ ورنہ قضا و قدر کو کون بدل سکتا ہے۔ بندہ بندہ ہے اس کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔
5. ان افراد کو یاد کرے جنھوں نے اس سے بڑے بڑے امتحانات دئے ہیں اور بہترین اجر حاصل کیا ہے۔
6. یہ ملاحظہ کرے کہ امتحان ایک سعادت ہے اور بلاء اہل و لاہی کے لئے ہے بلکہ شدت بلاء مومنین کے لئے قرب الٰہی کی علامت ہے۔
7. یہ یاد کرے کہ یہ مصیبت خدائے حکیم کی طرف سے ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے خیر ہی چا ہے گا وہ بے نیاز ہے غرض مند نہیں ہے کہ فائدہ اٹھائے۔
8. یہ یاد کرے کہ یہ تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ ہے۔
9. یہ غور کرے کہ نالہ و فریاد سے دوست رنجیدہ ہوتے ہیں اور دشمن خوش حال ہوتا ہے۔
10.یہ دیکھے کہ صبر کا انجام دنیا میں بھی اچھا ہی ہوتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے مصیبت پر صبر کیا تو خدا نے کتنی بڑی عزت عنایت کی کہ اللہ نے انھیں حاکم بنا دیا اور حاکم کو غلام بنا دیا اور ان کے بھائیوں کو ان کی رعایا میں شامل کر دیا۔ زلیخا کو سر راہ لا کر بٹھا دیا۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام کو دوبارہ اموال، ازواج و اولاد عطا کر دی۔ جبکہ راہِ امتحان میں سب کچھ فنا ہو چکا تھا اور ان کے گھر میں سونے کی بارش کر دی۔
اس سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کے مصائب کو یاد کیا جائے کہ ان پر سب سے زیادہ مصیبتیں پڑی ہیں جبکہ وہ سردار خلائق تھے اور انھیں کے لئے دنیا پیدا ہوئی تھی۔
اور خبردار تمہارا صبر عوام جیسا نہ ہو کہ وہ صبر سے زیادہ اظہار صبر کرتے ہیں اور یہ ریاکاری ہے۔ صبر کا طریقہ متقین کا صبر ہے جس میں اجر آخرت کی توقع ہوتی ہے۔ یا عارفین کا صبر ہے جس میں مصیبت پر لطف آتا ہے کہ یہ محبوب کی عطا ہے اور وہ انجام سے زیادہ باخبر ہے۔
فرزند! یہ بھی یاد رکھو کہ صبر منافی گریہ نہیں ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے فرزند ابراہیم کے انتقال پر گریہ کیا اور جب کسی نے ٹوکا کہ ہم سے صبر کے لئے کہتے ہیں اور خود گریہ فرماتے ہیں تو آپ نے ڈانٹ کر فرمایا خبردار! دل میں تپش ضرور پیدا ہوگی اور آنکھوں سے آنسو بہر حال گریں گے۔ یہ ہمارا صبر ہے کہ ہم رضائے خدا کے خلاف کچھ نہیں کہتے۔
فرزند! مصیبت کے وقت اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون کہا کرو کہ اس سے صلوات و رحمت کا استحقاق پیدا ہوتا ہے اور انسان ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔
فرزند! امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جب صبر تمام ہوتا ہے تو فرحت نصیب ہوتی ہے اور تجربہ بھی اس کا گواہ ہے کہ ہر تنگی کے ساتھ ایک وسعت ہے۔
فرزند! یہ بھی یاد رکھو کہ صبر بہتیرے اوصاف و اخلاق کامرجع و مصدر ہے۔ حالات کے اعتبار سے اس کے نام الگ الگ ہیں ورنہ سب صبر کی شاخیں ہیں۔ شکم و شرمگاہ کے بارے میں صبر ہو تو اس کا نام عفت ہے۔ مصیبت پر صبر ہو تو اس کا نام صبر ہے جس کے مقابلہ میں جزع و فریاد ہے۔ ترک معصیت پر صبر ہو تو اس کا نام تقویٰ ہے۔ دولت کی برداشت پر ہو تو ضبط نفس ہے جس کی ضدا کڑہے۔ مصائب و حوادثِ دنیا پر ہو تو اس کا نام وسعت صدر ہے جس کی ضد تنگدلی ہے۔ جنگ میں ہو تو اس کا نام شجاعت ہے جس کی ضد بزدلی ہے۔ ضبط غیظ میں ہو تو اس کا نام حلم ہے جس کی ضد سفاہت ہے۔ کلام کے اخفاء میں ہو تو اس کا نام رازداری ہے جس کی ضدا فشاء راز ہے۔ فضول عیش کے مقابلہ میں ہو تو اس کا نام زہد ہے جس کی ضد حرص ہے۔ مختصر حصہ پر ہو تو اسکا نام قناعت ہے جس کی ضد لالچ اور ہوس ہے ۔ ۔ ۔ وغیرہ۔