• صارفین کی تعداد :
  • 4013
  • 1/1/2008
  • تاريخ :

دعوت اطاعت اور تنبیہ معصیت

رز سفید

فرزند! خدا تمہیں اطاعت کی توفیق دے اور معصیت سے محفوظ رکھے پروردگار اپنی مخلوق سے بے حد محبت کرتا ہے جس طرح کہ ہر صانع کو اپنی صنعت سے پیار ہوتا ہے۔ اس نے واجبات و مستحبات و محرومات و مکروہات کے احکام صرف بندوں کی مصلحت اور انھیں نقصان سے بچانے کے لئے معین کئے ہیں ورنہ اُسے نہ کسی کی اطاعت سے کوئی فائدہ ہے اور نہ کسی کی معصیت سے کوئی نقصان ہے۔ وہ غنی مطلق اور بے نیاز ہے۔ اس کا مقصد بندوں کے حالات کی اصلاح کرنا اور انھیں فائدہ پہونچانا ہے۔ اس کے احکام کی نافرمانی کرنا شکرِ منعم اور اطاعتِ مولا کی خلاف ورزی کے علاوہ سفاہت اور حماقت بھی ہے اس لئے کہ یہ اپنے فائدہ کی مخالفت ہے اور اپنے کو نقصان کے حوالے کرنا ہے۔

فرزند! معصیت سے بچو کہ یہ دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب کا باعث ہے۔ آدم کو ایک ترک اولیٰ پر جنت چھوڑنا پڑی ہے تو تمہاری کیا حقیقت ہے۔

فرزند! خبردار سُستی اور بیکاری سے کام نہ لینا کہ شیطان اور نفسِ امارہ جب برائیوں کو آراستہ کرنے اور اچھائیوں کو بدنام کرنے سے عاجز ہو جاتے ہیں تو انسان میں سُستی پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ انسان نیک اعمال نہ کر سکے یاد رکھو کہ کھانے، پینے، سونے، مال جمع کرنے، تفریح کرنے، باہمی اجتماعات اور میٹنگ کرنے میں اتنا وقت صرف نہ کرو کہ اصل عبادت میں سُستی پیدا ہو جائے بلکہ ہر امر دنیا میں صرف مقدار ضرورت پر اکتفا کرو۔

خبردار! بے معنی اور غیر مفید کاموں میں عمر صرف نہ کرنا۔ تمہاری زندگی کا ہر لمحہ ایک قیمتی جوہر ہے بلکہ جوہر سے زیادہ باارزش ہے کہ جو ہر دولت صرف کرنے سے حاصل ہو جاتا ہے اور عمر دوبارہ واپس نہیں آتی۔ خبردار اسکا ایک لمحہ بھی بیکار ضائع نہ ہونے پائے۔

فرزند! ’’شباب کو ضعیفی آنے سے پہلے صحت کو مرض سے پہلے، فرصت کو مشغولیت سے پہلے، قوت کو ضعف سے پہلے اور حیات کو موت سے پہلے غنیمت سمجھو۔‘‘روایات کا مضمون ہے کہ اہل جنت کو صرف ان لمحات پر افسوس ہوگا جو زندگی میں ذکر خدا کے بغیر گزر گئے ہیں کہ وہ لمحہ بھی یادِ خدا میں گذر کیا ہوتا تو درجات میں اور بھی اضافہ ہو جاتا۔

ہر نفسِ نیک و بد روزِ قیامت اپنے کو اس بات پر ملامت کرے گا کہ کاش کچھ اور اعمالِ خیر کر لئے ہوتے تو درجات میں اور بھی اضافہ ہو جاتا یا جو برائی کی ہے وہ نہ کی ہوتی تو عذاب سے محفوظ رہ جاتے۔

مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوذر کو وصیت فرمائی کہ اپنی عمر کے خرچ کرنے میں درہم و دینار سے زیادہ بخل کرنا۔

بعض روایات میں ہے کہ ’’اوقات کا محفوظ رکھنا بہترین اطاعت ہے اور جو شخص بھی زراعت کے وقت کو ضائع کریگا وہ نتیجہ کے وقت شرمندہ ہوگا۔

فرزند! خدا کے لئے اپنی زندگی کو بچاؤ اور ایسے کام میں ضائع نہ کرو جو مرنے کے بعد کام نہ آئے۔ عاقل وہی ہے جو آج، کل کے لئے کام کرے اور وقت کو ہاتھ سے جانے نہ دے۔ ہوشیار وہی ہے جو موت کے بعد کے لئے کام کرے اور احمق وہی ہے جو خواہشات کی پیروی کر کے پھر مغفرت کی تمنا کرے

زندگی کو بیکار باتوں میں صرف کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اپنے جواہرات کو سڑک پر پھینک دے پھر پتھر کھودنے لگے (بچوں کے کھیلنے کے لئے) ظاہر ہے کہ یہ کام انتہائی احمقانہ ہے۔

فرزند! نور نظر! لخت جگر! اپنی زندگی کی قدر پہچانو اور اسے نجات دہندہ اعمال کے علاوہ دوسرے اعمال میں ضائع نہ کرو۔ ریشم کا کیڑا نہ بنو جو اپنی ہی ہلاکت کے لئے سعی کرتا ہے۔ اس کے بعد بہترین اوصاف و بلند ترین اخلاق کو اختیار کرو۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔