• صارفین کی تعداد :
  • 6233
  • 12/27/2007
  • تاريخ :

ضرورت نبوت

گل محمدی

حقیقت یہ ھے کہ انسان سعادت و کمال حاصل کرنے کے لئے ایک مخصوص ھدایت خدا کا محتاج و نیاز مند ھے وھی ھدایت جو وحی کے ذریعے انبیاء کو عطا کی جاتی ھے اور پھر ان کے توسط سے دوسرے انسانوں کی ھدایت کا انتظام کیا جاتا ھے۔ لھٰذا خدائے حکیم کہ جس کے تمام افعال وامور حکیمانہ اور مستحکم ھوتے ھیں نیز جو نہ فقط یہ کہ لغو اور بیھودہ فعل انجام نھیں دیتابلکہ ھر شایستہ اور پسندیدہ فعل قطعی طور پر اس سے صادر ھوتا ھے،مسلماً اور ضرورتاً بشر کو اس کی اس زندگی کی بنیادی ضرورت سے محروم نھیں رکھ سکتا۔ یہ ضرورت نبوت پر دلیل کا خلاصہ ھے جس کی بنیاد پر انسان کے لئے وحی و نبوت کی ضرورت ھے۔

 توضیح

 مذکورہ دلیل کو چند مقدمات کے ذیل میں بالتفصیل یوں بیان کیا جاتا ھے:

۱۔ خلقت انسان سے خدا کا ھدف یہ ھے کہ انسان اپنے کمال کے اعلیٰ ترین درجات طے کرنے کے ساتھ ساتھ ان نعمتوں اوررحمتوں سے لطف اندوز اور بھرہ ور ھونے کی صلاحیت پیدا کرے جو انسان کامل سے مخصوص ھیں۔

۲۔ انسان فقط اسی صورت میں اپنے اعلیٰ کمال تک پھونچ سکتا ھے کہ جب اپنے اختیار اور آزادانہ انتخاب کے ساتھ اپنے امور کوانجام دے یا ترک کرے۔ بہ الفاظ دیگر، انسان صرف اسی صورت میں اپنے حقیقی کمال تک رسائی حاصل کرسکتا ھے کہ جب اپنی زندگی کے طول و عرض میںایک خاص راستے پر گامزن ھو اور راہ مستقیم پر رواں دواں ھو۔

۳۔ انسان کو سعادت و کمال حقیقی تک پھونچانے والی راہ مستقیم کو طے کرنا اسی وقت ممکن ھے جب اس راستے سے آگاھی ھو۔

۴۔ حس (SENSE) اور عقل کے ذریعہ حاصل شدہ معلومات ، اس راہ سے شناسائی اور آگاھی کے لئے کافی نھیں ھیں۔

ابھی تو انسان نے خود ھی کونھیں پھچانا ھے اور نہ اپنے وجود کے مختلف ابعاد کی مکمل طور پر گرھیں کھول سکا ھے۔ تبھی تو یہ اپنے آپ کو ”موجود ناشناختہ“ اور ”بڑے بڑے مجھولات میں سے ایک “ کھتا نظر آتا ھے۔ یھی وجہ ھے کہ وہ ابھی اس موضوع پر یکساں نظریات و خیالات پیدا نھیں کرسکا ھے کہ انسان کی سعادت واقعی وحقیقی کیا ھے؟ حقیقی کمال کیا ھے؟ استاد شھید مطھری کے مطابق:

دنیا میں ایسے دو فلسفی بھی نھیں مل سکیں گے جو اس راہ کی شناخت سے متعلق متفق الخیال اور یکساں نظریات کے حامل ھوں۔ خود سعادت جو کہ اصلی اور حقیقی ھدف ھے، شروع شروع میں بھت واضح اور بدیھی مفھوم نظرآنے کے باوجود نھایت مبھم اورمغالطہ میں ڈال دینے والے مفاھیم میںسے ایک مفھوم ھے۔ سعادت کیا ھے؟، کمال کیا ھے؟ اور کیسے حاصل کیا جاسکتا ھے؟ شقاوت کیا ھے اور اس کے اسباب کیا ھیں؟ اس جیسے سوالات ابھی تک مجھولات میںشمار کئے جاتے ھیں۔ ابھی تک انسان ناشناختہ ھے، کیوں؟ اس لئے کہ ابھی تک بشر، اس کی صلاحتیں، اس کی صفات واستعداد وغیرہ سبھی کچھ ناشناختہ ھیں۔ (۱)

شناخت راہ سعادت وکمال اس وقت مزیددشوار ھوجاتی ھے جب اس بات کا علم ھوجائے کہ انسان ، حیات ابدی سے مالامال موجود کا نام ھے یعنی اس کی اس دنیا کی زندگی اس کی اس ضخیم کتاب وجود کا صرف ایک صفحہ ھے جس کتاب کے صفحات کی شمارش کسی بھی قیمت پر ممکن نھیں ھے نیز انسان کی اس مختصر سی زندگی میں اس کی چھوٹی سے چھوٹی حرکت اس کی ھمیشہ باقی رھنے والی اخروی زندگی پر اثر انداز ھوگی۔

۵۔ خدا، حکیم ھے اور اس کے تمام افعال حکیمانہ اور مستحکم ھوتے ھیں۔ اس کی ذات سے کوئی بھی قبیح فعل سرزد نھیںھوتا نیزوہ شایستہ وپسندیدہ فعل کو انجام دیتا ھے۔

مذکورہ تمام مقدمات سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ خدائے حکیم نے راہ ھدایت کو وحی کی صورت میں بشریت کے حوالے کردیا ھے اور انبیاء اس ھدایت کو بشرتک پھونچانے میں ایک وسیلے اور ذریعے کا کام کرتے ھیں۔

مثال

 ایک عاقل شخص اپنے کچھ دوستوں کو اپنے گھر پر مدعو کرتا ھے ۔جس کے لئے وہ مختلف انواع و اقسام کی خوردنی ونوشیدنی غذاؤں سے دسترخوان سجاتا ھے ، مھمان کی پذیرائی کے لئے نوکروں اور خدمت گزاروں کا انتظام کرتا ھے اور سارے گھرکو دوستوں کے آنے کی خوشی میں زرق برق کردیتا ھے لیکن اس کے دوست اس کے گھرکا ایڈرس نھیں جانتے ھیں اور نہ ھی ایسا کوئی ذریعہ ھے کہ جس کے توسط سے اس کے گھر کا ایڈرس حاصل کرسکیں۔ وہ شخص بھی اس بات کو جانتا ھے۔ ظاھر ھے کہ مذکورہ فرضیہ میں اس شخص کے لئے ضروری ھے کہ وہ اپنے دوستوں کواپنے گھر کا ایڈرس بتائے تاکہ وہ اس کے گھر پھونچ سکیں اور اگر وہ شخص ایسا نھیں کرتا ھے تو کوئی عام سا شخص بھی اس شخص کی عقل مندی پر سوالیہ نشان لگا دے گا۔

قصہٴ انسان وخدا بھی اس حکیم و عاقل شخص اور اس کے مھمان دوستوں کا سا ھی ھے۔ خد انے اپنے محبوب بندوں کے لئے جنت کا انتظام کر رکھا ھے لیکن اس کے بندے جنت تک پھونچنے والی راہ سے آگاہ نھیں ھیں اور ان کے پاس ایسا کوئی راستہ بھی نھیں ھے کہ جس کے ذریعہ وہ جنت تک رسائی حاصل کرسکیں۔ لھٰذا خدا ئے حکیم پر لازم ھے کہ وہ رسولوں اور انبیاء کے ذریعہ راہ نجات وکمال کو روشن وبیان کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔مجموعہٴ آثار: ج/۲،ص/۵۵