• صارفین کی تعداد :
  • 5656
  • 12/15/2007
  • تاريخ :

اسماء و اوصاف قرآن

قرآن مجید

علماء ومفسرین، قرآن کے اسماء کی تعدادکے سلسلے میں اختلاف نظررکھتے ہیں۔ابوالفتوح رازی نے اپنی تفسیر(روضۃالجنان )میں قرآن کے ٤٣ ناموں کاتذکرہ کیا ہے ۔

زرکشی نے قاضی ابوالمعالی سے نقل کرتے ہوئے ٥٥ ناموں کا ذکر کیا ہے ۔ جبکہ بعض افرادنے قرآن کیلئے ٨٠ نام ذکرکئے ہیں۔

ان افرادنے قرآن کریم کیلئے جن اسماء کا ذکر کیا ہے ان میں سے بعض وہ ہیں جوخود قرآن میں بطور صفت استعمال ہوئے ہیں۔

اسماء واوصاف میں عدم تشخیص و تمیزاورمختلف طرز تفکر کو اختلاف رائ کاسبب کہاجاسکتاہے ۔

اوریہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بعض افرادکی نظرمیں قرآن کے علاوہ قرآن کا کوئی دوسرا نام نہیں ہے۔ ہم یہاںمناسب سمجھتے ہیں کہ عناوین قرآن کواسماء اوراوصاف کے ذیل میں بیان کیاجائے۔

الف : قرآنی اسماء : عناوین قرآن میں سے چار عنوان ایسے ہیں جومسلم قرآن کیلئے اسماء کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔جواپنی اہمیت اور کثرت کے اعتبارسے بالترتیب یہ ہیں۔

١) قرآن :  بل ھو قرآن مجید،  یقیناً یہ بزرگ و برتر قرآن ہے (سورہ بروج :٢١)

٢) کتاب :  کتاب انزلناہ الیک ، یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا۔ (سورہ ص: ٢٩)

٣) ذکر : ھٰذا ذکر مبارک ،  یہ ایک مبارک ذکر ہے (سورہ انبیاء :٥٠)

٤) فرقان : تبارک الذی نزّل الفرقان علیٰ عبدہ  ،  بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا۔(فرقان: ١)

زرقانی نے مندرجہ بالا اسماء میں’’تنزیل‘‘ کا بھی اضافہ کیاہے ۔کتاب ،ذکر، فرقان ، یہ تین عنوان قرآن کے علاوہ دوسری آسمانی کتابوں کیلئے بھی استعمال ہوتے ہیں۔جبکہ لفظ’’قرآن‘‘بطور خاص موجودہ قرآن کیلئے استعمال ہواہے ۔

ب) اوصاف قرآن : ہم یہاں ان اوصاف کا ذکرکررہے ہیں کہ جوخود قرآن میں قرآن کیلئے بطور وصف استعمال ہوتے ہیں۔

١) مجید : ق و القرآن مجید (ق:٢)

٢) کریم : انہ لقرآن کریم  (واقعہ : ٧٧)

٣)حکیم : یٰسین و القرآن حکیم  (یٰسین: ١)

٤) عظیم : و لقد اتیناک سبعاً من المثانی و القرآن العظیم (حجر: ٨٧)

٥) عزیر : انّہ الکتاب عزیر لا یاتیہ الباطل ( فصلت: ٤١)

٦) مبارک : ھذا ذکر مبارک ( انبیا : ٠ ٥ )

٧ ) مبین : تلک آیات الکتاب و قرآن مبین (حجر: ١)

٨ ) متشابہ :  اللہ نزل احسن الحدیث کتابا متشابھا (زمر: ٢٣)

٩ ) مثانی : اللہ نزل احسن الحدیث کتاباً متشابھا مثانی (زمر: ٢٣)

١٠ ) عربی : انّا انزلناہ قرآنا عربیا لعلکم تعقلون (یوسف: ٢)

١١) غیر ذی عوج : قرآناً عربیاً غیر ذی عوج لعلھم یتقون  (زمر: ٢٨)

١٢) ذی الذکر : ص و القرآن ذی الذکر ( ص: ١)

١٣) بشیر :  کتاب فصلت یاتہ بشیراً و نذیرا (فصلت: ٢٣)

١٤ ) نذیر : کتاب فصلت یاتہ بشیراً و  نذیرا ( فصلت: ٢٣)

١٥) قیّم : الحمد للّٰہ الذی انزل علی عبدہ الکتاب... قیّماً ( کہف: ١٢)

آخر میں ہم ایک اور نام کی طرف اشارہ کرتے ہیں اگرچہ یہ نام خود قرآن میں استعمال نہیں ہوا ہے ۔ مگر بعض افراد کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر  کی رحلت کے بعد قرآن کا رائج ترین اور مشہور و معروف نام ’’ مصحف‘‘ تھا جبکہ خود پیغمبر کی زندگی میں قرن کے لئے کوئی معین اور متفق علیہ نام نہ تھا ۔

اس نام گزاری کی کیفیت کے سلسلہ میں ڈاکٹر رامیاد کہتے ہیں : قرآن کی جمع وری کے بعد اصحاب پیغمبر نے یہ چاہا کہ اس کے لئے کوئی نام تجویز کیا جائے لھٰذا بعض نے چاہا کہ اسے انجیل کیا جائے ، جب کہ بعض نے اس کو سفر کہے جانے کی پیش کش کی ، مگر یہ تمام رائ رد ہوگئیں خر کار عبد اللہ ابن مسعود نے اسے مصحف کہے جانے کی تجویز پیش کی جس پر سب کا اتفاق ہو گیا پھر اسی وقت سے قرآن کو مصحف کے نام سے پہچاہا جانے لگا۔

یہ بات تو مورد قبول ہے کہ پیغمبر اسلام (ص)کی رحلت کے بعد قرآن جلد ہی  مصحف کے نام سے مشہور ہو گیا ۔ مگر یہ کہ خود پیغمبراسلام (ص)کی زندگی میں کوئی خاص اور معین نام نہ تھا قابل قبول نہیں ہے اس لئے کہ قرآن اور کتاب وہ الفاظ ہیں کہ جو خو د پیغمبر اسلام اور حضرت علی ٴکی روایات اور ان کے اصحاب کے اقوال میں استعمال ہوئے ہیں ۔ جیسا کہ وہ معروف حدیث جس میں آپ نے فرمایا :

 اذا التبست علیکم الفتن کقطع اللیل المظلم فعلیکم بالقرآن ( اصول کافی جلد ٢ ص ٥٩٩)

یا آپ کا قول فضل القرآن علی سائر الکلام کفضل اللہ علی خلقہ  ( علوم القرآن عند المفسرین جلد ١ ص ٧٠)

یا آپ کی وہ وصیت کہ فرمایا : انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی(البرھان فی تفسیر القرآن جلد ١ ص ٩١٤)

اس کے علاوہ عصر نزول کی وہ صدھا روایات بھی ہیں جن میں اس آسمانی کتاب کو قرآن اور کتاب کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔ یہ تمام چیزیں ان ناموں کے اس زمانے میں رائج اور مشہور ہونے کو ثابت کرتی ہیں ۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ٢٣ سال تک مسلمانوں کی کتاب کا کوئی مشخص و معین نام ہی نہ ہو ؟ نیز علم نحو کے اعتبار سے لفظ’’ قرآن ‘‘ کا علم اور اسم خاص کے عنوان سے خود قرآن میں استعمال ہونا بھی اس نام کی شہرت کا مبیّن ثبوت ہے ۔

پیغمبر اسلام  کی رحلت کے بعد ’’ مصحف‘‘ کے نام کی وجہ شہرت قرآن کی کتابت اور اسکی تدوین ہے ۔ صحیفہ ہر گستردہ اور پھیلی ہوئی چیز کو کہا جاتا ہے ، اسی لئے اس صفحہ کو جس پر لکھا جاتا ہے صحیفہ کہا جاتاہے اور مصحف ان صحیفوں کے مجموعے کا نام ہے کہ جو دو جلدوں کے درمیان ہو ۔ پیغمبراسلام کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے اہم وظائف میں سے ایک کتابت قرآن اور اس کے لکھے ہوئے صحف کی جمع وری تھا لھٰذا ایسی صورت حال کے پیش نظر یہ نام قرآن کے لئے مشہور و معروف ہو گیا.

سید نسیم زیدی