عوامی مطالبات اور وحشیانہ اقدامات میں فرق رکھنا چاہئے: آیت اللہ خامنہ ای
ایرانی سپریم لیڈر نے ملک میں حالیہ رونما ہونے والے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ عوام کے جائز اور برحق مطالبات اور وحشیانہ اقدامات میں فرق رکھنا چاہئے.
ایرانی سپریم لیڈر نے ملک میں حالیہ رونما ہونے والے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ عوام کے جائز اور برحق مطالبات اور وحشیانہ اقدامات میں فرق رکھنا چاہئے.
ان خیالات کا اظہار قائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی 'سید علی خامنہ ای' نے منگل کے روز تہران میں 9 جنوری کی انقلابی تحریک کی مناسبت سے ایرانی شہر قم میں بسنے والے ہزاروں کی تعداد میں افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا.
اس موقع پر انہوں نے فرمایا کہ ملک کے حالیہ واقعات پر مختلف تبصرے کئے جارہے ہیں مگر اس بات کو ضرور مد نظر رکھنا چاہئے کہ عوامی مطالبات اور وحشیانہ اقدامات کے مرتکب ہونے والے عناصر کے درمیان فرق ہے.
انہوں نے مزید فرمایا کہ عوام کی جانب سے جائز اور برحق مطالبات کے اظہار اور وحشیانہ اقدامات کے مسئلے کو ایک دوسرے سے الگ کرنا چاہئے.
قائد انقلاب نے فرمایا کہ اگر کسی علاقے میں ایک سو سے 500 لوگ اکھٹے ہوکر اپنے مطالبات کی خاطر احتجاج کریں تو اسے حقیقی معنوں میں عوامی احتجاج کہا جاسکتا ہے تاہم بعض شرپسند عناصر جن کا مقصد صرف مخصوص منصوبے کو آگے لے کر چلنا ہے اسے بالکل بھی احتجاج نہیں کہا جاسکتا.
انہوں نے فرمایا کہ احتجاج ایسے نہیں ہوتے کہ قرآن و اسلام کو برا کہا جائے، قومی پرچم کی توہین ہو، مساجد کو نذر آتش کیا جائے. لہذا ان باتوں کو عوامی مطالبات سے الگ رکھنا ہوگا.
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ عوام کی باتوں کو سننا چاہئے، ان کو درپیش مسائل کو دیکھنا چاہئے اور جتنا ہوسکے ان تمام مسائل کا ازالہ کرنا چاہئے.
انہوں نے مزید فرمایا کہ ہم سب پر بشمول مجھ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی کہ عوام کو درپیش مسائل کو حل کریں.
سپریم لیڈر نے فرمایا کہ میں اپنے عوام کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حالیہ واقعات میں ایک مثلث شکل میں عناصر نے کمر کس لی تھی جن کی منصوبہ بندی بہت پہلے کی گئی تھی اور یہ تمام واقعات ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت رونما ہورہے تھے.
انہوں نے مزید فرمایا کہ اس سازشی مثلث کے ایک کونے میں امریکہ اور صہیونی حکمران موجود تھے جو کئی مہینوں سے ایران کے خلاف مخصوص ایجنڈے پر کام کررہے تھے اور مثلث کے دوسرے کونے پر خلیج فارس خطے کا ایک امیر ملک تھا جس نے اس منصوبے کے تمام اخراجات کو پورا کیا جبکہ تیسرے کونے میں منافقین کی دہشتگرد اور قاتل تنظیم سے وابستہ ٹولے تھے جن کو کچھ مہینے پہلے تیار کیا گیا تھا.
انہوں نے ایران کے حالیہ واقعات کے حوالے سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے اور ایران مخالف سازشوں کے سامنے مزاحمت کرنے پر عوام کو خراج تحسین پیش کیا.
قائد انقلاب اس بات پر زور دیا کہ آج ایران میں 40 سال پہلے کی طرح ملک دشمن سازشوں، ایرانی قوم کے خلاف عزائم، اسلام مخالف سازشوں کا بھرپور مقابلہ جاری رہے گا.
انہوں نے مزید فرمایا کہ دشمن عناصر کی دشمنی بڑھنے سے کہیں ملکی حکام عوامی مسائل بالخصوص ملک کو درپیش مشکلات سے غافل نہ ہوں.
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ آج دشمن اسلامی انقلاب کی وجہ سے ایرانی قوم کے خلاف سازشیں کررہا ہے اور گزشتہ 40 سالوں سے دشمن کے تمام حربے اور عزام کا اصل مقصد اسلامی انقلاب کو ناکام بنانا ہے کیونکہ اسلامی انقلاب نے سیاسی میدان میں دشمن کی جڑ کا خاتمہ کردیا ہے.
انہوں نے فرمایا کہ ایرانی قوم نے آج ایک بار پھر پوری طاقت کے ساتھ امریکہ اور برطانیہ میں رہنے والوں کو بتایا دیا کہ تم کچھ نہیں کرپائے اور مستقبل میں بھی کچھ نہیں کر پاؤ گے.
قائد انقلاب نے ملک دشمن عناصر کی سازشوں کو ناکام بنانے کے حوالے سے مسلح افواج بشمول پولیس، پاسداران انقلاب، سیکورٹی ادارے اور رضاکار فورس (بسیج) کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ کہا جارہا ہے کہ ایرانی حکومت امریکی طاقت سے خوفزدہ ہے. اگر ہم آپ سے خوفزدہ ہوتے تو کس طرح 50 سال پہلے آپ لوگوں کو وطن عزیز ایران سے نکال دیا اور 90 کی دہائی میں بھی خطے سے آپ لوگوں کو نکال دیا.
آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی حکام پر زور دیا کہ وہ ملک میں روزگار کے مواقع کی بہتر فراہمی اور اندرونی پیداوار کے لئے مزید کوششیں کریں.
انہوں نے فرمایا کہ بے روزگاری تمام مشکلات کی جڑ ہے جس کو اندرونی پیداوار کے ذریعے حل کرنا چاہئے.