• صارفین کی تعداد :
  • 577
  • 1/7/2018 3:24:00 PM
  • تاريخ :

برطانیہ میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی

برطانیہ میں عام افراد تیزی سے اسلام کی جانب راغب ہورہے ہیں گزشتہ چند برس میں ایک لاکھ سے زائد افراد دینِ حق قبول کرچکےہیں۔

 
برطانیہ میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی


برطانیہ میں عام افراد تیزی سے اسلام کی جانب راغب ہورہے ہیں گزشتہ چند برس میں ایک لاکھ سے زائد افراد دینِ حق قبول کرچکےہیں۔

ان میں اکثریت سفید فام نوجوان خواتین کی ہے جبکہ گزشتہ برس 5000 سے زائد برطانوی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ گزشتہ 10 برس کے مقابلے میں برطانیہ میں اسلام قبول کرنے والے افراد کی تعداد دگنی ہوچکی ہے۔ ان میں اکثریت نوجوان سفید فام خواتین کی ہے جو معاشرے کی بے راہ روی اور مادہ پرستی سے سخت نالاں ہیں۔ یہ خواتین روحانی سکون کی تلاش میں تھیں جو انہیں اسلام میں ملا ہے۔

برطانیہ میں کثیرالمذہبی تنظیم ’فیتھ میٹرز‘ نے ایک طویل سروے کے بعد کہا ہے کہ برطانیہ میں اسلام تیزی سے فروغ پارہا ہے اور اسے قبول کرنے والے خواتین و حضرات کے مطابق اسلام پر عمل پیرا رہتے ہوئے برطانیہ میں رہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ معاشرے سے ’مکمل مطابقت‘ رکھتا ہے۔

واضح رہے کہ سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر کی سالی لورین بوتھ نے جب اسلام قبول کیا تو اس کے بعد بھی دینِ اسلام کے دائرے میں داخل ہونے کا رجحان بڑھا اور برطانوی ذرائع ابلاغ میں اس کا بہت چرچا ہوا تھا۔

تاہم فیتھ میٹرز نے کہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی جانب سے اسلام قبول کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ وہ مغربی طرزِ زندگی کے خلاف ہیں بلکہ عام نارمل افراد دین کی جانب مائل ہورہے ہیں اور وہ اسلام کو مغربی معاشرے اور اقدار کے ساتھ ہم آہنگ بھی سمجھتے ہیں۔

سروے کے مطابق گزشتہ 12 ماہ میں 5200 افراد نے اسلام قبول کیا جن میں لندن کے لوگوں کی تعداد 1400 ہے ۔ اسلام لانے والے دوتہائی افراد میں سفید فام خواتین شامل ہیں جن کی اوسط عمر 27 سال ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہےکہ اسلام قبول کرنے کے بعد بعض افراد نے دہشت گردی کی کارروائیاں بھی کیں جن میں نک ریئلی بھی شامل ہے جس نے کیل بم سے برسٹل کے ایک ریستوران کو اڑانے کی کوشش کی ۔ دوسری جانب جوتے میں بم چھپانے والے رچرڈ ریڈ اور 7 جولائی کے بم دھماکوں میں حصہ لینے والے گرمین لنڈسے بھی برطانوی نومسلم تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلام قبول کرنے والے افراد کی بہت قلیل تعداد ہی شدت پسندی کی جانب مائل ہے جنہیں ایک ’چھوٹی اقلیت‘ قرار دیا جاسکتا ہے تاہم سوان سی یونیورسٹی کی جانب سے کیے گئے اس سروے میں نومسلم خواتین و حضرات نے برطانوی ماحول کے منفی پہلوؤں پر بھی بات کی تھی۔

ان کے نزدیک شراب نوشی، منشیات، اخلاقی گراوٹ، جنسی بے راہ روی اور خریداری و مادہ پرستی کا جنون برطانیہ کے تاریک پہلو ہیں۔ اسلام قبول کرنے والے ہر چار میں سے ایک نے اعتراف کیا ہے کہ ایک باعمل مسلمان  برطانوی معاشرے سے فطری طور پر متصادم ہے ۔ 50 فیصد خواتین نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسکارف پہنا جبکہ 5 فیصد نے برقع کا انتخاب کیا۔ نصف سے زائد افراد نے کہا کہ اسلام اپنانے کے بعد انہیں اپنے خاندان کے منفی رویے کا سامنا ہوا۔

منبع: شفقنا نیوز