سیرت حضرت فاطمہ بنت اسد(سلام اللہ علیھا)
م لوگوں نے دیکھا کہ اچانک خانہ کعبہ کی پشت کی دیوار شق ہوئی اور فاطمہ بنت اسد ؑ کعبہ کے اندر داخل ہو گئیں ۔ پھر دیوارکعبہ آپس میں مل گئی ۔ہم لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ خانہ کعبہ کا تالا کھول کر اندرداخل ہوجائیں، لیکن تالا نہ کھلا ۔ تالا نہ کھلنے کی وجہ سے ہم لوگوں پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ یہ خدا وند عالم کا معجزہ ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ جناب فاطمہ بنت اسد ؑ چوتھے روز علیؑ کو آغوش میں لیے ہوئے برآمد ہوئیں ۔
مقالہ نگار: سید عقیل حیدر زیدی اگرچہ ہر انسان کا حسب و نسب اس کے باپ سے چلتا ہے لیکن کسی بھی کامل، شائستہ، بہترین اور فرشتہ صفت انسان کی شخصیت سازی میں، اُس کی ماں کی تربیت اور کردار ہی ہوتا ہے جو اُس کو اعلی ترین منازل تک پہنچانے میں موثّر ہوتا ہے، تاریخ کی ایک ایسی ہی عظیم المرتبت ماں، جس کی آغوشِ مبارک سے ایک نہیں، بلکہ دو عظیم شخصیتوں نے پروان چڑھ کر اپنی ماں کی طہارت و پاکیزگی اور اس کے ایمان و ایقان کا اعلان کیا، حضرت فاطمہ بنت اسد ؑ ہیں جنہوں نے تاریخِ انسانیت کی عظیم ترین ہستی اور فخرِ موجودات حضرت محمد مصطفیؐ اور اُن کے بعد افضل ترین موجودِ عالم، مولائے کائنات علی بن ابیطالب ؑ جیسی بے نظیر ہستیوں کو پروان چڑھایا۔ جب آنحضرت ؐ جناب ابو طالبؑ کی کفالت میں آئے تو انہی کی آغوش پیغمبر اکرمؐ جیسے ہادیِ اکبر اور راہنمائے اعظم کے لیے گہوارہ اور تربیت گاہ بنی اور انہوں نے اس دلسوزی سے آپؐ کی دیکھ بھال کی کہ آپؐ کو یتیمی اور ماں کی کمی کا احساس نہ ہونے دیااوررسول خدا ؐ بھی انہیں ماں سمجھتے، ماں کہہ کر پکارتے اور ماں ہی کی طرح اُن کی عزت و احترام کرتے تھے۔ آنحضرتؐ نے ان کی شفقت و محبت کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘ابو طالبؑ کے بعد ان (فاطمہ بنت اسدؑ) سے زیادہ کوئی مجھ پر شفیق اور مہربان نہ تھا۔’’ ١ واضح رہے کہ آپ کے بطن مبارک سے ابوطالبؑ کی سات اولادیں ہوئیں۔ جن میں تین صاحبزادیاں تھیں: ریطہ ، جمانہ اور فاختہ جو ‘‘ام ہانی’’ کی کنیت سے معروف ہیں اور چار صاحبزادے تھے: طالب، عقیل، جعفر اور علی ؑ ۔ طالب، جنابِ عقیل سے دس سال بڑے، عقیل، جنابِ جعفر سے دس سال بڑے اور جعفر، مولائے کائنات علیؑ سے دس سال بڑے تھے۔ جناب فاطمہ بنت اسد ؑ اپنے آباء و أجداد کی طرح مسلکِ ابراہیمی کی پابند، دینِ حنیف کی پیرو اور کفر و شرک کی آلائشوں سے پاک و صاف تھیں۔ چنانچہ آنحضرتؐ نے حضرت علیؑ سے اپنے صلبی اشتراک کے سلسلے میں فرمایا: ‘‘خدائے بزرگ و برتر نے ہمیں حضرت آدمؑ کی صُلب سے پاکیزہ صلبوں اور پاکیزہ رحموں کی طرف منتقل کیا۔ جس صُلب سے میں منتقل ہوا، اس صُلب سے ایک ساتھ علیؑ منتقل ہوئے، یہاں تک کہ خداوندِ عالم نے مجھے آمنہؑ کے شکم ِاطہر میں اور علیؑ کو فاطمہ بنت اسدؑ کے پاکیزہ شکم میں ودیعت فرمایا۔’’ ٢ بعض شیعہ سیرہ نویسوں نے حضرت علیؑ کی ولادت کے واقعے کو کچھ اس طرح لکھا ہے : جب جناب فاطمہ بنت اسد ؑ پر وضعِ حمل کے آثار ظاہر ہوئے تو وہ خانہ کعبہ کے قریب تشریف لے گئیں اور خدا وند عالم سے دعا کی کہ خدا یا! میری اس مشکل کو آسان فرما دے ۔ ابھی دعا میں مشغول ہی تھیں کہ خانہ کعبہ کی دیوار پھٹی اورجناب فاطمہ بنت اسد ؑ اندر داخل ہوگئیں اوروہیں پر حضرت علیؑ کی ولادت واقع ہوئی۔ یزید بن قعنب سے روایت ہے : میں عباس بن عبد المطلب اور ایک جماعت کے ساتھ مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کئے بیٹھا تھا کہ فاطمہ بنت اسد ؑ آئیں اور طوافِ خانہ کعبہ میں مشغول ہو گئیں، طواف کے دوران اُن پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے تو خانہ کعبہ کے قریب آکر کہنے لگیں: ‘‘خدایا! میں تجھ پر اور تیری طرف سے آنے والے تمام پیغمبروں اور کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں اور اپنے جدّ ابراہیم خلیل ؑ کی تصدیق کرتی ہوں اور یہ کہ انھوں نے اس بیتِ عتیق ‘‘خانہ کعبہ’’ کو بنایا، پس اُس کا واسطہ جس نے اس گھر کی تعمیر کی اور اس مولودِ مبارک کا واسطہ جو میرے بطن میں ہے کہ اس کی ولادت مجھ پر آسان فرما دے۔’’ جب فاطمہ بنت اسد ؑ علی ؑ کو لے کر خانہ کعبہ سے باہر آنے لگیں تو ہاتف غیبی کی ندا آئی: ‘‘اے فاطمہؑ! اس بچے کا نام ‘‘علی’’ رکھو،اس لیے کہ یہ علی و سربلند ہے اورخداوند جو علیُّ الاعلیٰ ہے فرماتا ہے: میں نے اس بچے کا نام اپنے نام سے مشتق کیا ہے ۔۔۔’’ ٣ راوی کہتا ہے: ہم لوگوں نے دیکھا کہ اچانک خانہ کعبہ کی پشت کی دیوار شق ہوئی اور فاطمہ بنت اسد ؑ کعبہ کے اندر داخل ہو گئیں ۔ پھر دیوارکعبہ آپس میں مل گئی ۔ہم لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ خانہ کعبہ کا تالا کھول کر اندرداخل ہوجائیں، لیکن تالا نہ کھلا ۔ تالا نہ کھلنے کی وجہ سے ہم لوگوں پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ یہ خدا وند عالم کا معجزہ ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ جناب فاطمہ بنت اسد ؑ چوتھے روز علیؑ کو آغوش میں لیے ہوئے برآمد ہوئیں ۔ ٤ اور جب انہوں نے دارِ دنیا سے رحلت فرمائی تو آنحضرتؐ نے آبدیدہ ہو کر فرمایا: ‘‘خدا کی قسم! وہ میری ماں تھیں اور پھر اپنی پیراہن انہیں بطورِ کفن پہنانے کے لیے دی اور جب قبر کھودی جا چکی تو آپؐ خود قبر میں اُترے اور کچھ دیر کے لئے لحد میں لیٹ گئے اور روتے ہوئے فرمایا: ‘‘اے مادرِ گرامی! خدا آپ کو جزائے خیر دے آپ بہترین ماں تھیں۔’’ ٥ ١۔ الاستیعاب، ج٢، ص٧٧٤ ٢۔ کفایۃ الطالب، ص٢٦ ٣۔ امالی، شیخ صدوق ؒ، ص١٩٤۔١٩٥ ٤۔ ایضاً
https://www.syedmusarazanaqvi.blogfa.com/post-126.aspx