امام خميني [ رہ ] كے نقطہ نظر سے نماز جمعہ كي منزلت تیسرا حصہ
۱۳۵۸ كي ۲۴ دي كو امام خميني [ رہ ] كي طرف سے حضرت آيۃ اللہ خامنہ اي تہران كي نماز جمعہ كے لئے منصوب ہوئے اور ۱۳۶۰ ۶ تير كو مسجد ابوذر ميں آپ كے سامنے ايك بم پهٹا اور آپ شديد زخمي ہوگئے ، امام خميني [ رہ ] نے اس مناسبت سے دئے گئے پيغام ميں فرمايا تها :
{ ۔ ۔ ۔ اب انقلاب اسلامي كے دشمنوں نے آپ پر حملہ كيا ہے ، آپ رسول اكرم كي نسل اور امام حسين كے خاندان سے ہيں ، آپ كا اس كے سوا كچه جرم نہيں ہے كہ آپ اسلام كے خدمت گذار ہيں اسلامي ملك كے خادم ہيں ، آپ جنگ كے ميدان ميں جانباز فوجي اور مسجد كے محراب ميں بہترين معلم ہيں ، نماز جماعت اور نماز جمعہ ميں كامياب خطيب ہيں ، آپ انقلاب كي راہوں ميں ايك دلسوز رہنما ہيں ، آپ نے اپنے سياسي افكار ، عوام سے اپني حمايت اور ستمگروں سے اپني بيزاري اور مخالفت كو تاريخ ميں ثبت كرديا ہے ۔ ۔ ۔ يہ لوگ سياسي سوجه بوجه سے اتني دور ہيں كہ پارليمينٹ ميں ، نماز جمعہ ميں اور قوم كے سامنے آپ كے بيان كے فورا بعد انهوں نے بے درنگ اس جرم كو انجام ديا ، اور اس پر جان ليوا حملہ كيا جس كي آواز حق و اصلاح پوري دنيا ميں مسلمانوں كو سنائي ديتي ہے ۔ ان لوگوں نے بهڑكانے يا مرعون كرنے كے بجائے درجنوں لاكه مسلمانوں كے عزم و حوصلہ كو اور مضبوط كرديا ہے اور ان كي صفوں كو آپس ميں اور زيادہ قريب كرديا ہے ۔ ۔ ۔ } ۔
منافقين كے ذريعہ آپ پر ناكام جان ليوا حملہ كے بعد آپ كي نقاہت كے دوران تہران كےميں متبادل امام جمعہ كي ضرورت كا بہت احساس ہوا ۔ مجموعي طور سے شہر تہران نے اس سياسي عبادي مراسم عبادت كے انعقاد ميں رہبر انقلاب كے علاوہ گيارہ امام جمعہ اور ديكهے ہيں : حضرات آيات طالقاني ، منتظري ، موسوي اردبيلي ، هاشمي رفسنجاني ، امامي كاشاني ، رباني املشي ، يزدي ، مهدوي كني ، جنتي ، طاهري خرم آبادي و خاتمي ۔ [ يہ فہرست اس ترتيب سے ہے كہ بالترتيب كون سے علماء امامت كے لئے آتے رہے ] ۔ اس درميان شهيد آيت الله رباني نے سب سے كم يعني صرف تين نماز جمعہ كا اقامہ كيا ہے اور آيۃ اللہ هاشمي رفسنجاني نے سب سے زيادہ يعني چار سو سے بهي زيادہ نماز جمعہ كا انعقاد كيا ہے ۔
تہران كي نماز جمعہ پہلي بار تہران يونيورسٹي ميں منعقد ہوئي اور اب تك تہران يونيورسٹي ميں سب سے زيادہ نماز جمعہ ادا كي گئي ہيں ، اگرچہ چه نماز جمعہ بہشت زہرا ميں ، اٹهارہ نماز جمعہ امام خميني [ رہ ] كے حرم مطہر ميں اور ايك نماز جمعہ مصلائے تہران ميں ادا كي گئيں ہيں ۔ مصلائے تہران كے سلسلہ ميں ۱۳۶۷ كي ۲۳ آبان كو امام خميني [ رہ ] نے تہران كے ائمہ جمعہ كي درخواست پر موجودہ مقام پر نماز خانہ يعني وہي مصلائے تہران بنانے كا حكم فرمايا تها :
{ مذكورہ زمين پر شرعي احكام كا لحاظ كرتے ہوئے حجتي الاسلام آقايان خامنہ اي و ہاشمي كي درخواست منظور كي جاتي ہے ۔ انشاء اللہ مصلائے تہران كي تعمير كے ساته ساته كفر ستيزي كے افكار كي تعمير ميں آپ بهي كامياب ہوں ۔ البتہ مصلي كي تعمير اس سادگي كے ساته ہونا چاہئے كہ مسلمانوں كي صدر اسلام كي عبادت گاہ كي سادگي كي ياد دہاني كرائے ۔ اور امريكي اسلام كي مسجدوں والي تعميراتي چكا چوند اور آرائش و زيبائش سے پرہيز كيا جائے ۔ اللہ تمام مسجد اللہ كي تعمير كرانے والوں كي تائيد فرمائے } ۔
اس اجازت نامہ كي بنياد پر مصلائے تہران كي تعمير كا كام شروع ہوگيا. ۱۳۸۲ كي ۲۳ آبان كو نماز جمعہ كي مصلائے تہران ميں منتقلي طے پائي اور پہلي نماز جمعہ رہبر انقلاب كي امامت ميں ادا ہوئي؛ ليكن كچه مشكلات كے سبب ، ان مشكلات كے ختم ہونے تك تہران يونيورسٹي ہي نماز جمعہ كي ميعاد گاہ بن كے رہ گئي ۔
ختم ہوا۔