ولایت قبول کرنے کا پیغام
لفظ " ولایت" کی بنیاد دراصل لفظ "ولی " سے ہوتی ہے اور ڈکشنری میں اس کے مختلف معنی بیان کۓ گۓ ہیں ۔ مثال کے طور پر مالک، عبد، معتیق (آزاد کرنے والا)، معتق (آزاد هوا)، صاحب (همراه)، قریب( مانند چچازاد بھائی)، جار (همسایه)، حلیف (هم پیمان)، ابن (بیٹا)، عم (چچا)، رب ، ناصر، منعم، نزیل ( جو کسی جگه پر ساکن هواهو)، شریک، ابن الاخت ( بھانجا)، محب، تابع، صهر(داماد)، اَولی بالتصرف (جو کسی وجھ سے، کسی دوسرے شخص کے امور پر تصرف کرنے کیلئے خود اس شخص کی بہ نسبت زیاده موزوں ھو )۔ اگر اس لفظ کے اصلاحی معنوں پر غور کیا جاۓ تو " ولایت" سب انسانوں کے کاموں میں مخلف لحاظ سے دخالت اور تصرف کے لیۓ تسلط اور نظر رکھنا ہے ، لیکن اس انداز سے کہ اس دوران متعلقہ فرد سے اختیار ، حق انتخاب اور حق مالکیت سلب نہ ہو ۔
شیعہ مکتب فکر کے لحاظ سے ولی اللہ کی شناخت اور اس کی پیروی سب پر واجب ہے اور جو کوئی بھی اس کام سے انکار کرے درحقیقت اس نے توحید اور نبوّت سے انکار کیا ۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ " جو کوئی بھی فوت ہو جاۓ اور وہ اپنے امام زمان کو نہ پہنچانے تو وہ مرگ جاہلیت پر مرا ہے "
ولایت کو قبول کرنے سے انسان کبھی بھی راہ حق کو گم نہیں کرتا ہے اور گمراہی سے بچا رہتا ہے اور یہ اہل بیت علیھم السلام ہی ہیں جو راہ حق کو مشخص کرتے ہیں اور دنیا اور آخرت میں سعادت پر پہنچنے والے راستے کی رہنمائی کرتے ہیں ۔
ماهیت ولایت
1ـ اساس اسلام: عن ابی جعفر علیه السلام أنَّهُ قالَ: «بُنِیَ الْاِسْلامُ عَلَی خَمْس دَعائِمَ: اَلْوِلایَةُ وَ الصَّلاةُ وَ الزَّکاةُ وَ صَومُ شَهرِ رَمَضانَ وَ الحَجُّ؛ (وسائل الشیعه، ج 1، ص 13)
اسلام پانچ ستون پر قائم ہے ۔ ولایت ، نماز ،زکوات،روزہ ماہ رمضان و حج۔
2ـ واجبات دین کا محافظ : عن علی علیه السلام علیه السلام أنَّهُ قالَ: «حُدُودُ الفَرائِضِ الَّتی فَرَضَهَا اللهُ عَلَی خَلْقِهِ هِیَ خَمْسَةٌ مِنْ کِبارِ الْفَرائِضِ: اَلصَّلاةُ وَالزَّکاةُ وَالْحَجُّ وَالصَّوْمُ وَالْوَلایَةُ الْحافِظَةُ لِهذِهِ الْفَرائِضِ الْأرْبَعَةِ (بحار الانوار، ج 65، ص 387)؛
واجبات کی حدود جو خدا نے بندوں پر واجب کی ہیں ، پانچ چیزیں جو سب سےاعلی فرائض ہیں ، نماز ، زکات، حج،روزہ و ولایت جو کہ اس چار فریضوں کی نگاہدار ہے ۔
متعلقہ تحریریں:
لفظ مولا اور آئمہ اکرام
امامت پر بحث