پروین اعتصامی کی شاعری میں حقیقت نگری اور تاریخ نگاری(حصہ سوم)
ایسے ماحول میں جب بیشتر مرد شاعر اور ادبی بھی یوں برملا اپنے خیالات کے اظہار کی جرأت نہ رکھتے تھے، بھلا کسی خاتون شاعرہ سے ایسے خیالات کے اظہار کی توقع کیسے کی جا سکتی تھی۔ لیکن پروین نے جو کچھ سوچا، اسے زبان میرے آئیں اور کبھی مختلف ظریف اور کبھی چڑیا اور کبوتر جیسے پرندوں کی زبان سے حرف مدعا کہہ ڈالا۔ پہلے پہل پروین قصہ گویی کی طرف مائل تھیں۔ لیکن پھر پتہ و موعظت کا انداز اپنا لیا۔ ان کی اکثر نظموں میں شعری مصرعہ ماحول کا تعین کرتا ہے۔
بہ کنج مطبخ تاریک ، تابہ گفت بہ دیگ
کہ از ملال نمبردی ، چہ خیرہ سر بودی
گنجشک خرد گفت سحر با کبوتری
کاخر توھم بروں کن از این آشیان سری
پھر وہ انھی کی زبان سے ماجرا بیان کرتی ہیں اور نظم کے اختتام پر اپنا نقطۂ نظر اور پیغام بھی قاری تک پہنچاتی ہیں۔ بالعموم اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہوئے وہ تجسیم کا سہارا لیتی ہیں۔ ان کا اندازِ بیان مکمل طور پر قدرت اور سادہ ہوتا ہے تاکہ اس کی تفہیم قاری کے لیے آسان ہوتی ہے۔
جوانی چین گفت روزی بہ پیری
کہ چون است با پیرت زندگانی
بگفت اندریں نامہ حرفی است مبھم
معبہ کہ معنیش جز وقت پیری ندافی
تو ، بہ کز توانائی خویش گوئی
چہ می پرسی از دورہ ی ناتوانی
جوانی نکودار کا پن مرغ زیبا
نماند در این خانہ ی استخوانی
متاعی کہ من رایگان دادم ازکف
تو گرمی توانی، مدہ رایگانی
چو سرمایہ ام سوخت ، از کام ماندم
کہ بازی است ، بی مایہ بازارگانی
از آن برد گنج مرا ، دزدگیتی
کہ درخواب بودم گہ پاسبانی
البتہ پروین اپنے نظریات کو بیان کرتے ہوئے کبھی تعصب کا شکار نہیں ہوتیں اور نہ ہی بے جا طرفداری ان کی شاعری کو بوجھل بناتی ہے۔ وہ قارئین کو نصیحتوں پر عمل کے لیے اصرار بھی نہیں کرتیں۔ وہ صرف واقعات کو بیان کرتی ہیں اور فیصلے کا حق قاری پر چھوڑ دیتی ہیں کم وہ خود اچھے او ربرے کی پہچان کرتے۔ البتہ و ہ ایسی مثالیں ضرور بیان کرتی ہیں جن کی مدد سے قاری کو درست فیصلے میں مدد دے سکیں۔ درحقیقت پروین اپنے عہد کے معاشر کی مسائل اور اخلاقی بحران کو اپنی شاعری میں نمایاں کرتی ہیں۔ پروین کا قلم کسی ماہر مصور کے برش کی طرح اخلاقی اور معاشرتی مسائل کی تصاویر بنات ہے اور پھر استادانہ مہارت کے ساتھ اس تصویر میں لوگوں کے دکھوں کے رنگ بھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ پس اگر آئینی تحریک کے دور کے لوگوں کی اخلاقی کی حالت کا جائزہ لینا چاہتیں تو مندرجہ ذیل تصایور ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔
حاکم شرعی کہ بھردشوہ فتوی می دھد
کی دھن عرض فقیران راجواب ای رنجیر
آنکہ خود را پاک می داند زھر آلودگی
می کند مردار خواری چون غراب ای رنجبر
گر کہ اطفال تو بی شامند سبھا باک نیست
خواجہ تیھو می کندھر شب کہا ب ای رنجیر
درخور دانش امیر اندذو فرز ندانشان
کوچہ خواھی فھم کردن از کتاب ای رنجیر
مردم انا نند کز حکم و سیاست آگھند
کارگر کارش غم است و اضطراب ای زنجیر
ھر کہ پوشد جامہ ی نیکو بزرگ و لایق اوست
رو تو صدھا و صلہ داری ہر تیاب ای رنجیر
(جاری ہے)
متعلقہ تحریریں:
پروین اعتصامی کی بیماری اور موت
پروين اعتصامي