وہ عمل جو گناہوں کي زنجيريں توڑ ديتا ہے ( حصّہ سوّم )
2- مسجد ميں آنے جانے کا اجر اور نماز کي فضيلت
جب نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے مدينہ کي طرف ہجرت فرمائي تو مدينہ ميں پہنچنے کے بعد جو پہلا کام انجام ديا وہ مسجد کي تعمير تھا - يہ مسجد نہ صرف خدا کا گھر اور عبادت کي جگہ تھي بلکہ تعليم و تربيت کي جگہ اور سياسي اور عدالت کي جگہ بھي قرار پائي -
مسجد کي تعمير سے مسلمانوں ميں وحدت کا احساس پيدا ہوا - جب تمام مسلمان مسجد ميں ايک ہي صف ميں کھڑے ہو کر اللہ کے سامنے سربسجود ہوتے ہيں تو ان ميں وحدت و يکپارچگي کا احساس بيدار ہوتا ہے - اخوت و بھائي چارے کا جذبہ ابھرتا ہے - اللہ کي عبادت کرنے کے ساتھ اسي مسجد ميں وہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي زبان سے رہنمائي بھي حاصل کرتے - (5)
امام صادق عليہ السلام نے اپنے بزرگوں سے روايت کرتے ہوۓ فرمايا کہ حديث نبوي ہے کہ " جس کا گفتار قرآن ہو اور گھر مسجد ہو ، خدا اس کے ليۓ جنّت ميں گھر بنا دے گا " (6)
باجماعت نماز ادا کرنے کے درجات بہت زيادہ ہيں - اس ليۓ ہر مسلمان کو کوشش کرني چاہيۓ کہ وہ باجماعت نماز ادا کرے -
امام صادق عليہ السلام کا فرمان ہے کہ " سچ ميں ، نماز با جماعت ، اکيلے نماز پڑھنے سے تيئيس درجے افضل ہے اور پچيس نمازيں حساب ہوتي ہے " (7)
اسلام کے ابتدائي دنوں ميں جب پہلي نماز کي ادائيگي ہوئي تو اسے نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي امامت ميں ادا کيا گيا تھا - يعقوبي اس بارے ميں لکھتا ہے کہ :
" جب پہلي نماز نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر واجب ہوئي تو وہ نماز ظہر تھي ، حضرت جبرائيل آۓ اور انہيں وضو کرنے کا طريقہ سکھايا ، جب حضرت جبرائيل نے وضو کر ليا تو نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے بھي وضو فرمايا ، پھر اس کے بعد نماز پڑھي تاکہ نماز پڑھنے کا طريقہ سکھايا جا سکے ، اس کے بعد نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے بھي نماز ادا کي - "
نماز خدا کا قرب حاصل کرنے کا بہترين ذريعہ ہے - اسلام کے ابتدائي ادوار اور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے دور ميں جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم حضرت بلال سے فرمايا کرتے کہ اذان کے ذريعے ميري روح کے اطمينان و سکون کا انتظام کرو- ہماري خدا سے دعا ہے کہ اللہ تعالي ہر مسلمان کو نماز سے محبت پيدا کرنے کي توفيق دے - آمين-
حوالہ جات :
1- حر عاملى، وسائل الشيعه، ج 3 ، ص 7، نهج البلاغه، خطبه 199، ص 307.
2- مجلسى، بحارالانوار، ج 77، ص 77.
3. نهج البلاغه، خطبه 199، ص 307.
4- شيخ صدوق ، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ص 79.
5- بنگريد به مقاله نگارنده (سيد حسين حرّ) در مجله آينه پژوهش شماره 87، ص 9.
6-همان، ص 75.
7- شيخ صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ص 99.
متعلقہ تحریریں:
توبہ کي کوئي شرط نہيں ہے
انسان کو توبہ کا وقت ملتا ہے