تاريخ اسلام اور اتحاد مسلمين ( حصہ چہارم)
اپنے زمانے کے حاکموں کے مقابلے ميں باقي اماموں کا بھي يہي رويہ رہا- يہ بزرگ اگرچہ دشمنوں کي قسم قسم کي دھکميوں اور دھوکے بازيوں، سنگدليوں اور بے باکيوں کا مقابلہ کرتے رہے ليکن جب انہوں نے سمجھ ليا کہ حق حکومت ان کي طرف نہيں پلٹے گا تو بھي وہ اپنے اصل مقصد سے نہيں ہٹے اور لوگوں کي ديني اور اخلاقي تعليم اور اپنے پيروکاروں کو مذہب کي بلند مرتبہ تعليمات کي طرف متوجہ اور راغب کرنے ميں مصروف رہے-
يہ ہے اہل بيت رسول ط‘ اور ان کے پيروکاروں کا طريقہ ليکن کتنا بڑا جرم ہے آج کل کے مصنفين کا جو چند ڈالروں اور ريالوں کي خاطر شيعوں کو ايک خفيہ، تخريب کار اور بنياد اکھيڑ دينے والي جماعت کا نام ديتے ہيں-
يہ صحيح ہے کہ ہر وہ مسلمان جو اہل بيت ط‘ کے تعليمي مکتب کا ماننے والا ہے وہ ظلم اور ظالموں کا دشمن ہوتا ہے ، ظالموں اور بدکاروں سے تعلق نہيں رکھتا اور ان لوگوں کو جو ظالموں کي مدد کرتے ہيں نفرت اور حقارت کي نظر سے ديکھتا ہے چنانچہ يہ نيک عادت اور صحيح دستور ايک نسل سے دوسري نسل تک چلتا رہتا ہے ليکن اس کے يہ معنيٰ نہيں ہيں کہ ہم شيعوں کو بہانہ ، دھوکا اور مکر وغيرہ کے عنوان سے پہچانيں-
شيعہ مسلمان دوسرے مسلمانوں کو دھوکا دينا اپنے ليے جائز نہيں سمجھتے - يہ وہ طريقہ ہے جو انہوں نے اپنے اماموں سے ليا ہے شيعوں کے عقيدے کي رو سے ہر اس مسلمان کا مال ، جان اور عزت محفوظ ہے جو خدا کي وحدانيت اور پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي رسالت کي گواہي ديتا ہے يعني لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتا ہے کسي مسلمان کي اجازت کے بغير اس کا مال کھانا جائز نہيں ہے کيونکہ ايک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائي ہے اسے چاہيے کہ وہ اپنے بھائي کے ان حقوق کا خيال رکھے ج کي طرف ہم آگے کي بحث ميں اشارہ کريں گے- ( ختم شد )
متعلقہ تحریریں:
وہابيت کے سائے ميں
ابن تيميہ کے بارے ميں سني علماء کي آراء