مسلمانوں ميں اتحاد کي ضرورت
دنيا کے ہر خطے ميں آج مسلمان، خواہ وہ مسلم ممالک ہوں يا ايسي رياستيں جہاں مسلمان اقليت ميں ہيں، اسلام کي سمت جھکاۆ اور ميلان اور اپني اسلامي شناخت کي بازيابي کا احساس کر رہے ہيں- آج علم اسلام کا روشن خيال طبقہ اشتراکيت اور مغربي مکاتب سے بد دل ہوکر اسلام کي سمت بڑھ رہا ہے اور عالم انسانيت کے درد و الم کي دوا کے لئے اسلام کا دامن تھام رہا ہے اور اس سے راہ حل چاہ رہا ہے- آج مسلم امہ ميں اسلام کي جانب ايسي رغبت پيدا ہوئي ہے جو گزشہ کئي صديوں ميں ديکھنے ميں نہيں آئي- اسلامي ممالک پر کئي عشروں تک مغربي اور مشرقي بلاکوں کے گہرے سياسي و ثقافتي تسلط کے بعد اب عالم اسلام کے نوجوانوں کي فکروں کا افق اور نگاہوں کا مرکز اسلام بن گيا ہے- يہ ايک سچائي ہے- خود مغرب والے اور دنيا کي سامراجي طاقتيں بھي اس کي معترف ہيں- اکابرين سامراج کے لئے جو چيز سوہان روح بني ہوئي ہے وہ مسلمانوں کا اسلامي تشخص اور يہ احساس ہے کہ وہ مسلمان ہيں- يہ چيز مسلمانوں کو متحد کرتي اور ايک دوسرے سے جوڑتي ہے-
اگر ہم تاريخ پر نظر دوڑائيں تو آئمہ کرام نے بھي اسلامي اتحاد پر بہت زور ديا ہے اور اسلام کي سربلندي کے ليۓ ہر اس راستے کو اپنايا جو مسلمانوں کے ليے بہترين تھا - اہل بيت ط‘ ان چيزوں کي بزرگي اور مضبوطي کي شديد خواہش رکھتے تھے جن سے اسلام کا اظہار ہوتا ہے اور اسلام کي عزت، مسلمانوں کے اتحاد، ان ميں بھائي چارے کي حفاظت اور مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں سے ہر قسم کي دشمنياں دور کرنے کي ترغيب ديتے تھے-
مولي الموحدين ، امام المتقين ، امير المومنين حضر ت علي ط‘ کا ان خلفاء کے ساتھ طرز عمل جو ان سے پہلے مسند خلافت پر بيٹھے تھے بھلايا نہيں جا سکتا- اگرچہ آپ خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے اور ان لوگوں غاصب ، تاہم آپ نے ان کے ساتھ (مسلمانوں کے اتحاد کي حفاظت کي خاطر) صلح جوئي اور مصاحبت رکھي بلکہ (ايک مدت تک) آپ نے اپنا يہ عقيدہ بھي عوام کے مجمعوں ميں پيش نہيں کيا کہ منصب خلافت پر جس کا تعين کيا گيا ہے وہ صرف وہي ہيں ليکن جب حکومت آپ کے ہاتھ ميں آئي تو آپ نے ""ميدان رحبہ"" (نوٹ،کوفہ کا وہ مقام جہاں اميرالمومنين ط‘ عموماً اپنے دور خلافت ميں خطبہ ديا کرتے تھے) ميں رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے باقي ماندہ اصحاب سے جنہوں نے غدير کے دن حضور سرورکائنات صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي طرف سے آپ کا تقرر ديکھا تھا گواہي چاہي، آپ نے ان باتوں کا بے جھجک ذکر کيا جن ميں مسلمانوں کے فائدے اور بھلائياں تھيں- يہ اسي اتحادالمسلمين کے خيال سے تھا جو آپ نے اپني حکومت سے پہلے کے زمانے کي طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمايا:
فَخَشِيتُ اِن لَّم اَنصُرِالاِسلاَمَ وَ اَھلَہُ اَرٰي فِيہِ ثَلماً وَّھَدماً :-مجھے ڈر تھا کہ اگر ميں اسلام اور مسلمانوں کا ساتھ نہيں دوں گا تو اسلام ميں تفرقہ اور تباہي پھيل جائے گي- ( جاري ہے)
متعلقہ تحریریں:
اہل تشيع کے اصول عقائد
''و عترتي اہل بيتي '' صحيح ہے يا ''و سنتي''؟