شيعہ کافر ، تو سب کافر ( حصّہ چہارم )
صحابہ کرام ميں سے وہ بزرگ کہ جن ميں رضائے الہي کے حصول کے سوا کوئي اور جذبہ نہ تھا انھوں نے رسول کےساتھ ساتھ اولا رسول سے بھي عشق کيا اور ہميشہ ان سے مخلص رہے - ان مخلص صحابہ ميں سلمان فارسي ابو ذر ،عمار ياسر اور مقداد سرفہرست ہيں اور سلمان تو اتنے قريب ہوئے کہ ايک روايت کے مطابق رسول اللہ نے انھيں اپنے اہل بيت ميں داخل فرما ليا ۔
يہ اور اس طرح کے دوسرے صحابہ کرام کو جو اہلبيت کے کبھي مقابل نہيں ہوئے بلکہ ہميشہ ان کے جانثار بنے رہے ابتدائي شيعہ ہين جيسے جيسے اہل بيت کے مخالف نماياں ہوتے گئے ان حضرات کي شيعيت بھي نماياں ہوتي گئي اور پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي وفات کے بعد جب صحابہ کا ايک گروہ اہلبيت کا سياسي حريف بن کر سامنے آيا تو اہل بيت کے دامن سے وابستہ صحابہ کرام کي شيعيت بالکل واضح ہو گئي -
تاريخ کا گہرا مطالعہ کرنے والے ہرشخص کويہ جاننا چاہئيے کہ شيعيت کي تاريخ محبت و ايثار اور قربانيوں کي تاريخ ہے ،فتنہ پروري کي نہيں -ڈاکٹر علي شريعتي کے مطابق "شيعيت ايک ايسا اسلام ہے کہ جس نے علي (ع) جيسے عظيم انسان کي ايک "نہيں" نے اپنے آپ کو پہچنوايا اور تاريخ اسلام ميں اپني راہ متعين کي - علي وارث محمد (ص) تھے اور ايسے اسلام کا مظہر جس ميں عدل تھا اور حق -يہ"نہيں " کي آواز خلافت کي انتخابي کميٹي کے سامنے بلندہوئي تھي يہ عبدالرحمن بن عوف کاجواب تھا اور يہ شخص جاہ پرستي اورمصلحت پسندي کا مظہر تھا "
عبدالرحمن بن عوف کا علي (ع) سے صرف اتنا سوال تھا کہ اگر تم سيرت شيخين پر چلنے کا وعدہ کرو تو خلافت تمہارے حوالے کردي جائے مگر علي (ع) کي ايک "نہيں" نے علي کي سيرت وکردار کو پوري دنيا پر واضح کرديا اور شيعيت کي راہ ہميشہ کے لئے معين کردي -اس "نہيں " کے نتيجہ ميں حضرت علي تيسري مرتبہ اپنے جائز حق سے محروم کرديئے گئے -اور بنواميہ کے ايک بزرگ حضرت عثمان "ہاں" کرکے مسند رسول پر بيٹھ گئے -شيعہ صحابي جناب مقداد مسجد نبوي ميں پکارا ٹھے کہ کاش ہمارے پاس اتني طاقت ہوتي کہ ہم اہل بيت کو ان کا حق دلا سکتے - اگر ہمت ہو تو کہہ ديجئے کہ حضرت مقداد رضي اللہ تعالي عنہ فتنہ پھيلانے کي کوشش کي - ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
اہل تشيع کے اصول عقائد
شيعه مکتب کي ہاں فروع دين دس ہيں جو قرآن و حديث سے مأخوذ ہيں