• صارفین کی تعداد :
  • 6550
  • 2/26/2014
  • تاريخ :

امامت ديني مرجعيت کے معني ميں

بسم الله الرحمن الرحيم

ہم عرض کر چکے ہيں کہ پيغمبر وحي الٰہي کي تبليغ کرنے والے اور اس کا پيغام پہونچانے والے تھے - لوگ جب متن اسلامي کے بارے ميں جاننا چاہتے تھے يا قرآن ميں مطلب نہ پاتے تھے پيغمبر سے سوال کرتے تھے مسئلہ يہ ہے کہ اسلام جو کچھ معارف احکام اور قوانين بيان کرنا چاہتا تھا کيا وہ سب کے سب وہي ہے جو قرآن ميں آ گئے ہيں اور پيغمبر نے عام طور سے لوگوں کے سامنے بيان کر ديا ہے ؟ يانہيں بلکہ قہري طور سے زمانہ اس کي اجازت نہيں ديتا تھا کہ پيغمبر تمام قوانينوں احکام عام طور سے لوگوں ميں بيان کر ديں علي پيغمبر کے وصي و جانشين تھے اور پيغمبر اسلام نے اسلام کي تمام چھوٹي بڑي باتيں يا کم از کم اسلام کے تمام کليات علي سے بيان کردئےاور انہيں ايک بے مثال عالم غير معلم اپنے اصحاب ميں سے سب سے ممتاز انہيں کي طرح اپنء باتوں ميں خطا و لغزش سے ميري اور خدا کي جانب سے نازل ہونے والي تمام باتوں سے واقف شخصيت کے عنوان سے لوگوں کےسامنے پيش کيا اور فرمايا اے لوگوں ميرے بعد ديني مسائل ميں جو کچھ پوچھنا ہو ميرے اس وصي و جانشين اور اس کے بعد تما م آنے والے اوصياء سے سوال کرنا در حقيقت يہاں امامت ايک کامل اسلام شناس کي حيثيت سے سامنے آتي ہے ليکن يہ اسلام شناس ايک مجتہد کي حد سے کہيں بالا تر ہے اس کي اسلام شناسي منجانب اللہ ہے اور اءمہ عليہ السلام يعني واقعي اسلام شناس البتہ يہ وہ افراد نہيں ہے جنھوں نے اپني عقل اور فکر کے ذريعے اسلام کو پہچانا ہوجن کے يہاں قہري طور پر خطا اور اشتباہ کا امکان بھي پايا جاتا ہو بلکہ انھوں نے ان غيبي اور مرموز ذرائع سے اسلامي علوم پيغمبر سے حاصل کئے ہيں جو ہم پر پوشيدہ پے او ر يہ علم پيغمبر سے علي عليہ السلام تک اور علي سے بعد کے اءمہ تک پہونچا ہے اور اءمہ عليہ السلام کے پورے دور ميں يہ علم خطاوں سے بري معصوم علم کي صورت ميں ايک امام سے دوسرے امام تک پہونچتا رہا ہے -

اہل سنت کسي شخص کے لئےاس منزلت و مقام کےقائلنہيں ہيں لہٰذا وہ سرے سے اس طرح کي امامت کے حامل کسي بھي امام کے وجود کو تسليم نہيں کرتے - يعني وہ امامت کے ہي قائل نہيں ہيں، نہ يہ کہ امامت کے توقائل ہوں اور کہيں کہ علي امام نہيں ہيں، ابوبکر اس کے اہل ہيں، نہيں بلکہ وہ لوگ ابوبکر، عمر عثمان بلکہ کلي طور پر کسي ايک صحابي کے لئےبھي اس منصب يا مقام کو تسليم نہيں کرتے -يہي سبب ہےکہ خود اپني کتابوں ميں ابوبکرعمر سے ديني مسائل ميں ھزاروں اشتباہات اورغلطياں نقل کرتے ہيں ليکن شيعہ اپنے اماموں کوخطائوں سے معصوم جانتے ہيں اور امام سے کسي خطا کےسرزدہ ونےکو محال سمجھتے ہيں (مثال کے طور پر اہل سنت کي کتابوں ميں مذکور ہے کہ) ابوبکرنے فلاں مقام پراشتباہ کيا اوربعد ميں خود ہي کہا کہ "ان لي شيطاناً نعتريني" بلاشبہ ايک شيطان ہےجو اکثر ميرے اوپر مسلط ہوجاتا ہےاور ميں غلطياں کربيٹھتا ہوں،يا عمر نےفلاں مقام پرخطااورغلطي کي اوربعدميں کہاکہ:يہ عورتيں بھي عمر سےزيادہ عالم وفاضل ہيں- کہتے ہيں کي جب ابوبکر کاانتقال ہواتو ان کےاہل خاندان منجملہ ابوبکرکي صاحبزادي اورزوجہء رسول عائشہ بھي گريہ وآہ زاري کرنےلگيں-يہ صداے گرياجب ابوبکر کے گھرسے بلند ہوئي توعمر نے پيغام کہلوايا کي جاکر عورتوںسے کہ دوکہ خاموش رہيں-وہ خاموش نہ ہوئيںدوسري مرتبہ کہلايا کہ اگرخاموش نہ ہوئيں تو ميں تازيا نہ ليکر آتا ہوں يوں ہي پيغام کے بعد پيغام جاتے رہےلوگوں نے عائشہ سے کہا کہ عمر گريا کرنے پر بگڑ رہے ہيں دھمکياں دے رہے ہيں او ررونےسےمنع کرتے ہيں  ۔آپ نے کہاابن خطاب کو بلاؤ،ديکھيں وہ کيا کہ رہا ہے-عمرعائشہ کے احترام ميں خود آئے،عائشہ نے پوچھا کيا بات ہے يہ بار بار پيغام کييوں کہلا رہےتھے؟کہنےلگے ميں نے پيغمبرص سے سنا ہےکہ اگر کوئي شخص مرجائے اور لوگ اس پر روءيں تو جس قدر وہ گريہ کريں گے اتنا ہي مرنے والا عذاب ميں گرفتار ہوتا جائے گا، لوگوں کا گريہ اس کےلئےعذاب ہے - عائشہ نے کہا : تم سمجھتے نہيں، تمہيں اشتباہ ہوا ہے - مسئلہ کچھ اور ہے، ميں جانتي ہوں اصل قصہ کيا ہے - ايک مرتبہ ايک خبيث يہودي مر گيا تھا، اس کے اعزا اس پر رورہے تھے - پيغمبر نے فرمايا :يہ لوگ رورہے ہيں، جبکہ اس پر عذاب ہو ريا ہے - يہ نہيں فرمايا تھا کہ ان لوگوں کو رونا عذاب کا سبب بن رہا ہے - بلکہ فرمايا تھا کہ يہ لوگ اس پر رورہے ہيں اور يہ نہيں جانتے کہ اس پر عذاب کيا جا رہا ہے - آخر اس واقعہ کا اس مسئلہ سے تعلق ہے ؟!اس کے علاوہ اگر ميت پر رونا حرام ہے تو ہم گناہ کر رہے ہيں خدا ايک بے گناہ پر عذاب کيوں کر رہا ہے ؟!اس کا اس ميں کيا گناہ ہے کہ گريہ ہم کريں اور عذاب ميں وہ مبتلا کيا جائے ؟! اگر عورتيں نہ ہوتيں تو عمر ہلاک ہو گيا ہوتا -  ( جاري ہے )

 

کتاب کا نام : امامت و رهبري

تاءليف : آيۃ اللہ شہيد مطہّري(رہ)