• صارفین کی تعداد :
  • 6385
  • 2/24/2014
  • تاريخ :

امامت کے معاني و مراتب

اللهم صل علي محمد و آل محمد

ھماري بحث مسئلہ امامت سے متعلق ہے - سب جانتے ہيں کہ مسئلہ امامت کو ہم شيعوں کے يہاں غير معمولي اہميت حاصل ہے - جبکہ دوسرے اسلامي فرقوں ميں اسے اتني اہميت نہيں دي جاتي - راز يہ ہے کہ شيعوں کے يہاں امامت کا جو مفہوم ہے وہ دوسرے تمام اسلامي فرقوں سے مختلف ہے - اگر چہ بعض مشترک پہوبھي پائے جاتے ہيں ، ليکن شيعي عقاعد ميں امامت کا ايک مخصوص پہلو بھي ہے اور يہي پہلو امامت کو غير معمولي اہميت کا حامل بنا ديتا ہے - مثال کے طور پر جب ہم شيعہ اصول دين کو شيعي نقطہ نظر کے مطابق بيان کرتے ہيں تو کہتے ہيں کہ اصول دين ، توحيد ، عدل، نبوت، امامت اور قيامت کاو مجموعہ ہے - يعني امامت کو اصول دين کا جز و شمار کرتے ہيں - اہل تسنن بھي ايک طرح جو امامت کے قايل ہيں - بنيادي طور سے امامت کے منکر نہيں ہيں وہ اسے دوسري شکل سے تسليم کرتے ہيں - ليکن وہ جس نوعيت سے تسليم کرتے ہيں، اس ميں امامت اصول دين کا جز ونہيں ہے بلکہ فروع دين کا جو ہے بہر حال ہم دونوں امامت کے مسئلہ ميں اختلاف رکھتے ہيں وہ ايک اعتبار سے امامت کےقائل ہےيں اور ہم دوسرے اعتبار سے امامت کو تسليم کرتے ہيں آخر يہ کيسے ہوا کہ شيعہ امامت کو اصول دين کا جزو انتے ہيں او اہل سنت اسے فروغ دين کا جزو سمجھتے ہيں ؟ اس کا سبب وہي ہے جو عرض کرچکا ہوں کہ شيعہ اور ايہل سنت کے يہاں امامت کے مفہوم ميں فرق ہے -

امام کے معني :

امام کے معني ہيں پيشوا يا رہبر - لفظ امام، پيشوا يا رہبر بذات خود کوئي مقدس مفہوم نہيں رکھتے پيشوا يارہبر سے مراد ہے،آگے آگے چلنے والا، جس کا اتباع يا پيروي کي جائے - چاہے وہ پيشوا عادي، ہدايت يافتہ اور صحيح راہ پر چلنے والاہو يا باطل اور گمراہ ہو- قرآن نے بھي لفظ امام کو دونوں معني ميں استعمال کيا ہے-ايک جگہ فرماتا ہے :-

"وجعلنا ھم اءئمۃيھدون بامرنا"(انبياء / 73 )

ہم نے ان کو امام قرار ديا ہے جو ہمارے حکم سے ہدايت و رہبري کرتے ہيں -

دوسري جگہ فرماتا ہے :-

ائمہ يدعون الي النار (قصص /71)

وہ امام جو لوگوں کو جہنم کي طرف بلاتے ہيں -

يا مثلاًفرعون کے لئےبھي امام سے ملتے جلتے مفہوم کا لفظ استعمال کيا گيا ہے : يقدم قومہ يوم لاقيامۃ [1]

"وہ قيامت کے دن اپني قوم کے آگے چلے گا -" معلوم ہوا کہ لفظاامام سے مراد پيشوا يا رہبر ہے - ہميں اس وقت باطل پيشوا يا رہبر سے سروکار نہيں ہے، يہاں صرف پيشوا يا رہبر کا مفہوم عرض کرنا مقصود ہے-

پيشوائي يا امامت کے چند مقامات ہيں جن ميں سے بعض مفاہيم ہيں وہ سرے سے اس طرح کي مامت کے منکر ہيں-نہ يہ کہ وہ امامت کو توقائل ہوں مگر مصداق ميں ہم سے اختلاف رکھتے ہوں - جس امامت کے وہ قائل ہيں ليکن اس کي کيفيت و شکل اور افراد ميں ہم سے اختلاف رکھتے ہيں اس سے مراد معاشرہ کي رہبري و سر پرستي ہے- چنانچہ يہي يا اس سے ملتي جلتي تعبير زمانہء قديم سے متکلمين کي کتابوں ميں بھي ذکر ہوئي ہے - خواجہ نصير الدين طوسي نے اپني کتاب "تجريد الاعتقاد" ميں امامت کي تعريف ان لفظوں ميں کي ہے "رياسۃ عامۃ "يعني "عمومي رياست و حاکميت" (يہاں ايک بات کي وضاحت ضروري ہے )   ( جاري ہے )

کتاب کا نام : امامت و رهبري

تاءليف : آيۃ اللہ شہيد مطہّري(رہ)