سلمان رشدي ملعون کے ارتداد کا تاريخي فتوي ( حصّہ چہارم )
دنيا کے کسي بھي قانوني نظام ميں ہر طرح کے عقيدے کے اظہار کي کھلي آزادي نہيں ہے ہرملک اپني آئيڈيالوجي اور اخلاقي اصولوں کي روشني ميں آزادي اظہار کي اجازت ديتا ہے-اور تمام عقلاے عالم کا بھي اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر انسان اپنے تمام اعمال و کردار کے حوالے سے مکمل اور مطلقآ آزاد نہيں ہو سکتا-
معروف برطانوي مفکر جان اسٹورٹ ميل کے مطابق"کسي نے يہ نہيں کہا ہے کہ اعمال کوعقيدے کي طرح آزاد ہونا چاہيے خاص کر ايسے حالات ميں جب عقيدے کا اظہار دوسروں کي مصلحت اور مفاد کے خلاف ہو-ايسي صورت حال ميں تو عقيدے کا اظہار بھي اپني حيثيت کھو ديتا ہے"
اگرچہ آزادي اظہار انساني اقدار ميں سے ايک اہم قدر ہے ليکن آزادي اظہار کے نام پر انساني عزت وکرامت کو پامال نہيں کيا جاسکتا-اسي طرح اس کائنات کے خالق اور اس کے پيامبران جوکہ انساني سعادت کے لئے مشعل راہ ہيں کي عزت واحترام کو ہميشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہيے اور آزادي اظہار کے نام پر ان اخلاقي حدود کو عبور نہيں کرناچاہيے-لہذاآزادي اظہار کو افراد اور شخصيات کي توہين اور انکي شخصيت کشي کے برابر نہيں سمجھنا چاہيے-
اسلام کے نقطہ نظر ميں انسان کو آذاد خلق کيا گيا ہے اور آزادي خداوندعالم کي طرف سے ايک بہترين ھديہ اور تحفہ ہے-اسلام ميں آزادي اظہار کو بھي آزادي کي ہي ايک قسم سمجھا جاتا ہے-اسلام ميں ايسے بہت سے افراد گزرے ہيں جنہوں نے توہين سے ہٹ کر اور اخلاقي اقدار کي پاسداري کرتے ہوئے اسلام کے خلاف اپنا نقطہ نظر بيان کيا ہے اور اسلام نے کبھي اس پر کسي قسم کا دباۆ نہيں ڈالا ہے کيونکہ اسلام ايک مکمل اور قانع کنندہ دين ہے وہ اعتراض کرنے والوں کے سوالات کا منطقي اور مدلل جواب ديتاہے اور سب کو تعقل ،تفکر، غور وفکر اور بحث ومباحثہ کي دعوت ديتا ہے- البتہ اسلام ميں بھي عقل سليم کے تحت آزادي اظہار کے حوالے سے کچھ پابندياں موجود ہيں-يہ پابندياں حقيقت ميں آزادي کے تحفظ اور اخلاقي اور نفسياتي شرائط کے لئے ضمانت کا کردار ادا کرتي ہيء کيونکہ کسي بھي معاشرے ميں نظرياني اور فکري آزادي تک پہنچنے کے لئے ان پابنديوں کا ہونا ضروري ہوتا ہے-
اسلامي مقدسات کي توہين اور اسلام کے چہرے کو مسخ کر کے پيش کرنا مغرب کا ايک ہتھکنڈہ اور وہ اس عمل کے ذريعے اسلام و فوبيا کے ايجنڈے کو آگے بڑھانا ہے وہ ان اقدامات سے معاشرے کي اخلاقي اور نفسياتي صورت حال کو درہم برہم کرنا چاہتا ہے کيونکہ ايسي صورت حال ميں ايک عام انسان صحيح اور سالم راہ کا انتخاب آساني سے نہيں کرسکتا اور يہي کيفيت مغرب کي مطلوبہ کيفيت ہے-مغرب نے مشرق ميں اسلامي بيداري اور مغرب ميں اسلام پسندي کي بڑھتي ہوئي لہر کو روکنے کے لئے اس روش کا انتخاب کيا ہے يہي وجہ ہے کہ مغرب ان عناصر کي بھرپور حمايت کر رہا ہے جو آزادي اظہار کے پردے ميں اسلام و فوبيا کے ايجنڈے پر کارفرما ہيں- ( ختم شد )
بشکريہ اردو ريڈيو تھران
متعلقہ تحریریں:
محترمہ والٹرور کي اسلام قبول کرنے کي ايمان افروز داستان
اسلامي و مغربي طرز زندگي