سلمان رشدي ملعون کے ارتداد کا تاريخي فتوي
1988 ميں برطانيہ ميں مقيم ايک ہندوستاني نژاد سلمان رشدي نے رسول اکرمغ– کي توہين پر مبني ايک کتاب تحرير کي جس ميں رسول اکرمغ– کي توہيں کے علاوہ يہ ہرزہ سرائي بھي کي گئي کہ قران مجيد اللہ کيطرف سے حضرت محمدغ– پر نازل نہيں ہوا بلکہ يہ خود انکے اپنے افکاروخيالات کا مجموعہ ہے- سلمان رشدي کي اس کتاب کے سامنے آتے ہي تمام عالم اسلام ميں شديد غم وغصے کي لہر دوڑ گئي -مغرب نے اس بات کا احساس کئے بغير کہ اس سے دنيا بھر ميں موجود ڈيڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو شديد ٹھيس پہنچي ہے اسلام کے خلاف پروپگينڈے کا بازار گرم کرديا-مغربي حکومتوں بالخصوص امريکہ نے مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنے کي بجائے شيطاني آيات نامي اس کتاب کے مصنف پر انعامات کي بارش کردي اور برطانيہ کي ملکہ نے تو بےشرمي کي تمام حدود کو پھلانکتے ہوئے ملعون سلمان رشدي کو" سر" کا خطاب دے ديا-مغربي ممالک کي طرف سے اس متنازعہ کتاب کي حمايت ايک عادي اور روزمرہ کي بات نہ تھي وہ اس حمايت کے ذريعے مسلمانوں کے تاثرات اور ردعمل کا جائزہ لينے کے ساتھ ساتھ اسلام کے مقدسات بالخصوص قران اور پيغامبر گرامي کے خلاف توہين کے مذموم منصوبے کا آغاز کرنا چاہتے تھے-امام خميني رح نے ايک دور انديش رھبر کي حيثيت سے مغرب کي اس سازش کو بھانپتے ہوئے 14 فروري 1988 کو قران وسنت کي روشني ميں سلمان رشدي کے واجب القتل ہونے کا تاريخي فتوي صادر کيا-اس فتوي کو تمام عالم اسلام ميں زبردست پزيرائي ملي- امام خميني رح کي رحلت کے بعد رھبر انقلاب اسلامي آيت اللہ سيد علي خامنہ اي نے بھي اس فتوي پر تاکيد کي اور اسے ناقابل واپسي قرار ديا-
امام خميني کے اس تاريخي فتوي پر مغربي ممالک کا ردعمل اس قدر شديد تھا کہ ايران ميں تعينات گيارہ يورپي ملکوں نے تہران سے اپنے سفير واپس بلا لئے اور ايرني حکومت اور عوام کو شديد ترين سياسي اور اقتصادي پابنديوں کي دھمکياں ديں-ايراني قوم اور اور حکومت کي استقامت اور پامردي اس بات کا باعث بني کہ بارہ کے بارہ يورپي ممالک کے سفير بغير کسي شور شرابے کے تہران واپس آگئے-غاصب صيہوني حکومت اور برطانيہ ملعون سلمان رشدي کي حفاظت پر خطير رقم خرچ کر رہے ہيں ليکن اسکے باوجود سلمان رشدي اس فتوي پر عمل درآمد کے خوف سے سيکوريٹي کے انتہائي سخت انتظامات ميں زندگي گزار رہا ہے- ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
مغربي زندگي کي خامياں
سيکولر طرز زندگي کا عام ہونا