تکفيري عناصر کي حققيت ( حصّہ چہارم )
يہاں يہ بات قابل ذکر ہے کہ ايک تکفيري ، نہ صرف دين اسلام کے جامع اصول و فقہ کو صحيح طور پر جانتا نہيں ہے اور پروردگار سے بھي اس کا رابطہ گہرا نہيں ہوتا ہے بلکہ وہ اخلاقيات سے بھي دور ہوتا ہے - اچھے اخلاق سے آراستہ ہونے کي پيغمبر اسلام (ص) اور تمام ديني رہنماۆں نے تلقين کي ہے کيوں کہ اچھا اور نيک اخلاق ، روح کو لطيف بناتا ہے - ڈاکٹر مبلغي کا خيال ہے کہ " اگر اخلاق ميں شدت سے انفراديت ہو اور اجتماعي نہ ہو اور يا انتخابي صورت ميں عمل ہو تو معاشرے ميں پرتشدد اور انتقامي جذبے پيدا ہوں گے -اس بناء پر کہا جا سکتا ہےکہ تکفيريت ، عدم اخلاق کے سبب وجود ميں آتي ہے " - تکفيريوں کے درميان اسلامي اخلاق کے کمزور ہونے کے نتائج ميں سے ايک ، ان کے غير انساني وغير اخلاقي اور مفسد اقدامات کامشاہدہ کرنا ہے کہ جن سے متعلق خبريں ذرائع ابلاغ ميں منتشر ہوتي رہتي ہيں -
وہ اہم عامل جو تکفيريوں کو جنگ و تشدد پر اکساتا ہے ، دولت وثروت کا حصول ہے - وہ اگرچہ خود کو مجاہد سمجھتے ہيں ليکن عام طور پر جنگ ميں مال غنيمت حاصل کرنا ان کے لئے بہت اہيمت رکھتا ہے - اغيار ، تکفيري دہشت گردوں کو بڑي بڑي رقميں ديتے ہيں تاکہ وہ اسلامي ملکوں ميں جارحانہ کاروائياں انجام ديں اور مسلمانوں کے درميان تفرقے اور اختلاف کي آگ کو بھڑکائيں - امريکہ اور غاصب اسرائيل اور بعض عرب حکومتيں تکفيريوں کو بھاري مقدار ميں ہتھيار اور پيسے فراہم کرتي ہيں اور دنيا کے مختلف علاقوں سے سب سے زيادہ متشدد اور خونريز دہشت گرد گروہوں کو اکٹھا کرتے ہيں تاکہ وہ پيسہ لے کر امت مسلمہ کي ترقي و پيشرفت اور وحدت کي راہ ميں روڑے اٹکائيں ان کي سب سے زيادہ مالي امداد و حمايت سعودي عرب کر رہا ہے اور درحقيقت سعودي عرب کے تيل کے پيسوں سے تکفيري گروہ مسلح ہوتے ہيں - ايک امريکي تجزيہ نگار رنڈي شارٹ (randy short ) پريس ٹي وي کے ساتھ انٹرويو ميں ، تکفيريوں کے لئے سعودي عرب کي حمايت کے بارے ميں کہتے ہيں " سعودي عرب اپنے پيسے ، اسلام سے لوگوں کو منحرف اور سماجي تبديلياں لانے ميں صرف کرتا ہے - ايسا خيال کيا جا رہا ہے کہ سعودي حکام کو اپنے پيسے، شام کو تباہ کرنے کے بجائے سعودي عرب کے غريب ونادار عوام کو توانا بنانے ميں صرف کرنا چاہئے - بھاري رقميں خرچ کرنا اور امکانات فراہم کرنااس بات کا باعث بنا ہے کہ مختلف قوموں کے مختلف افراد تکفيريوں سے جا مليں - ان ميں سے بعض موقع پسند عناصر ہيں جو دين و اخلاق سے دور ہيں اور يورپ ، افريقہ اور روس کے بعض علاقوں مثلا چچنيہ سے آ کر تکفيري گروہوں ميں شامل ہو گئے ہيں - اور اس وقت شام ميں بدترين انساني الميہ رونما ہونے کا باعث بنے ہيں -
اسلامي مذاہب کي يونيورسٹيوں کے سربراہ اور پروفيسر ڈاکٹر مبلغي تکفيريوں کے خطرات کو، لوگوں کے عام تصورات سے بڑھ کر بتاتے ہيں - وہ اس سلسلےميں کہتے ہيں اگر کسي معاشرے ميں "تکفير " ايک منظم شکل اختيار کر لے تو پھر يہ معاشرہ امن و سکون کے ساتھ معنويت کي سمت قدم نہيں بڑھا نہيں سکتا" - اس بناء پر يہ ضروري ہے کہ علماء اسلام اور شيعہ اورسني فرقوں کي جيد شخصيات اس بحران کے حل کےبارے ميں غور کريں اور اتحاد کي بنياد پر مناسب روشيں اختيار کرنے کے ذريعے ، تکفيريوں کے تباہ کن اقدامات پر قابو پائيں - ڈاکٹر مبلغي آخر ميں کہتے ہيں " ہميں يہ جاننا چاہئےکہ اگر منشيات تباہ کن ہے تو تکفيري عناصر، امت مسلمہ اور اسلام کو تباہ کرنے والے ہيں - اگر علماء اسلام کوئي راہ حل تلاش کرليں اور ايک منشور کو اپنے عمل کي بنياد قرار ديں تو عالم اسلام کي اس مشکل کا خاتمہ ہو سکتا ہے - ہميں چاہيئے کہ ذرائع ابلاغ اور سفارتي روشوں سے تکفيريت کے خاتمے ميں کوشاں رہيں - کيوں کہ تکفيريوں کے خلاف کوئي اقدام عمل ميں نہ لانے سے ان کے حوصلے بلند ہوں گے اور انہيں مزيد اپنے تخريبي اقدامات انجام دينے کا موقع ہاتھ آئے گا اور تکفيريوں کو کھلي چھوٹ دينے سے بہت سے اسلام دشمنوں اور بد خواہ عناصر کو بھي اسلام مخالف اقدامات انجام دينے کا موقع مسير آئے گا -
بشکريہ اردو ريڈيو تھران
متعلقہ تحریریں:
وھابيت كے باني
بربَھاري كا واقعہ