دوستي اور معاشرت کے آداب
جوانوں کے نام امام علي کي وصيتيں (حصّہ اوّل)
تقويٰ ايک مضبوط حصار (حصّہ دوّم)
تقويتِ ارادہ (حصّہ سوّم )
جواني کے بارے ميں سوال ہو گا )حصّہ چہارم)
خاردار جھاڑي اور لکڑھارا (حصّہ پنجم)
عزتِ نفس اور بزرگواري (حصّہ ششم)
مسلمان جوان اور نفس (حصّہ ہفتم)
ضمير کي آواز (حصّہ ہشتم)
تجربہ اندوزي( حصّہ نہم)
انسان اور تجربہ (حصّہ دہم)
يقين کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ دوستي کي بقا اور دوام ' اسکي حدود اور رفاقت کے آداب ملحوظ رکھنے سے وابستہ ہے- دوست بنانا آسان ہے ليکن دوستي کے بندھن کي حفاظت خاصا مشکل کام ہے- امام علي نے اپنے کلام ميںدوستي کي پائيداري اور بقا کا موجب بننے والے چند ظريف نکات کي جانب اشارہ کيا ہے' فرماتے ہيں : ناتواں ترين شخص وہ ہے جو دوست نہ بنا سکے اور اس سے بھي زيادہ ناتواں وہ شخص ہے جو اپنا دوست کھو بيٹھے- (بحارالانوار ـ ج 74 ـ ص 278)
بعض جوانوں کو شکايت ہوتي ہے کہ ان کي دوستياں زيادہ دير تک قائم نہيں رہتيں-اگر اسکي وجوہات کا جائرہ ليں تو ايک اہم وجہ دوستي کي حدود کا لحاظ نہ رکھنا اور رشتہ ءرفاقت ميں افراط و تفريط کا شکار ہو جانا ہے- اس سلسلے ميں بھي امير المومنين حضرت علي کے سود مند فرمودات و نصائح پر عمل' ان مشکلات کے حل ميںيقينامددگار ثابت ہوگا-
مضبوط دوستي کے بارے ميںامام علي کے فرمودات ميں شامل درجِ ذيل نکات' خاص اہميت رکھتے ہيں-
الف : دوستي ميں اعتدال : عام طور پر ديکھا گيا ہے کہ جوان دوستي ميں افراط (حد سے بڑھ جانا)کا شکار ہو جاتے ہيں اور توازن کي حدود ميں نہيں رہتے- اس عدم توازن کي اہم وجہ عمر کے اس حصے ميں جذبات و احساسات کي فراواني ہے- ايسے جوان دوستي کے دنوں ميں اپنے دوست سے حد سے زيادہ محبت اور لگائو ظاہر کرتے ہيں اور اگر دوستي کا يہ بندھن ٹوٹ جائے تو اسي سابقہ دوست کے خلاف انتہائي دشمني اور عداوت کا اظہار کرتے ہيں' حتيٰ بسا اوقات کوئي خطرناک قدم بھي اٹھا بيٹتھے ہيں-
امام علي کي نصيحت ہے کہ دوستي اور رفاقت کے رشتے ميں ميانہ روي سے کام لو- آپ فرماتے ہيں : اپنے پسنديدہ دوست سے دوستي کا اظہار کرتے وقت اعتدال کو ملحوظ رکھو' شايد ايک روز وہ تمہارا دشمن ہو جائے - اسي طرح اگر کسي سے تمہاري ناراضگي يا عداوت ہوجائے تو اسکے اظہار ميں بھي اعتدال سے کام لو کيونکہ ممکن ہے کسي روز وہ تمہارا دوست بن جائے-
زيرِ گفتگومکتوب ميں بھي امام علي فرماتے ہيں :اگر تم اپنے کسي بھائي سے قطع تعلق کرنا چاہتے ہو 'تو اپنے پاس اتني گنجائش رکھو کہ اگر وہ کسي دن واپس آنا چاہے تو اسکے پاس پلٹنے کا راستہ کھلا ہوا ہو-(نہج البلاغہ -مکتوب31) (جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
معاشرہ ميں نوجوانوں کي طاقت
نوجوانوں کے اصلاح کي ضرورت