• صارفین کی تعداد :
  • 4839
  • 1/13/2014
  • تاريخ :

تجربہ اندوزي

تجربہ اندوزی

جوانوں کے نام امام علي  کي وصيتيں (حصّہ اوّل)

تقويٰ ايک مضبوط حصار (حصّہ دوّم)

تقويتِ ارادہ (حصّہ سوّم )

جواني کے بارے ميں سوال ہو گا )حصّہ چہارم)

 خاردار جھاڑي اور لکڑھارا (حصّہ پنجم)

 عزتِ نفس اور بزرگواري (حصّہ ششم)

مسلمان جوان اور نفس (حصّہ ہفتم)

ضمير کي آواز (حصّہ ہشتم)

امام علي  نے اپني وصيتوںميں'دوسروں کے تجربات سے استفادے پر بھي تاکيد کي ہے- اس سلسلے ميں آپ  نے فرمايا ہے : اعرض عليہ اخبار الماضين َ وذَکِّرہُ اصابَ مَن کان قَبلَکَ منِ الاوّلين و سرِفي ديارھِم و آثارھم فاَنظر فيما فَعَلوا وعَمّا انَتقَلُو او اَينَ حَلُّو او نَزلَوا ( گزرے ہوئے لوگوں کے حالات (اپنے دل کے سامنے )پيش کرتے رہنا 'اپنے اور پہلے گزر جانے والوں پر پڑنے والے مصائب کو اپني ياد ميں لاتے رہنا 'ان لوگوں کے ديار و آثار کي سير کرتے رہنا 'اور يہ ديکھتے رہنا کہ ان لوگوں نے کيا کچھ کيا اور وہ کہاں سے کہاں چلے گئے ہيں' کہاں وارد ہوئے ہيں اور کہاں ڈيرہ ڈالا ہے -نہج البلاغہ -مکتوب 31)

گو کہ افراد ِ معاشرہ ميں سے ہر فرد 'آزمودہ کار لوگوں کي رہنمائي اور دوسروں کے تجربات سے استفادے کا محتاج ہے ليکن مختلف وجوہ کي بنا پرنسل جوان کو تاريخ سے شناسائي' اور گزشتہ لوگوں کي سرگزشت سے حاصل ہونے والے تجربات کي زيادہ ضرورت ہوتي ہے کيونکہ :

اولاً ـجوان اپني کم عمري کي بنا پر کچے اور تجربات سے عاري ذہن کا مالک ہوتا ہے' وہ زمانے کے سرد و گرم کا چشيدہ نہيں ہوتا 'اپني کم عمري اور والدين اور سرپرستوں کا سايہ سر پر سلامت ہونے کي بنا پر اسے مشکلات اور دشواريوں کا براہ راست بہت کم سامنا کرنا پڑتا ہے - لہٰذااگر اس پر کوئي مشکل آپڑے تو يہ اسکا سکون و قرار درہم برہم کر ديتي ہے'اور اسے افسردہ اور بد مزاج بنا ديتي ہے-

ثانياً ـ موہوم تصورات ' جو دور ِجواني کي خصوصيات ميں سے ہيں 'بسا اوقات جوان کو حقيقت کي پہچان نہيں ہونے ديتے- جبکہ تجربہ وہم و خيال کے پردوں کو چاک کر ديتا ہے اور حقيقت کي سمت انسان کي رہنمائي کرتا ہے- امام علي  فرماتے ہيں : التجارب علم مستفاد (تجربات' سود مند علم ہيں-غرر الحکم-ج1-ص26ظ )

ثالثاً ـ جوان علمي و فني امور کے لئے ذہني صلاحيتوں کا حامل ہونے اور مختلف قسم کي مہارتوں کے حصول کي قابليت رکھنے کے باوجود زندگي گزارنے کا تجربہ نہ ہونے کي باعث معاشرتي شعور  سے بے بہرہ ہو تاہے- لہٰذا اسکي طرف سے غير سنجيدہ اور ضرر رساں فيصلوں اوراسکے دوسروں کے دامِ فريب ميں گرفتار ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے- امام علي  فرماتے ہيں : من قلّت تجربتہ خدع (جس کا تجربہ کم ہو وہ دھوکا کھا جاتا ہے-غرر الحکم -ج1-ص185)( جاري ہے )

 


متعلقہ تحریریں:

نوجوان کي اصلاح کے ليۓ ضروري عناصر

جوانوں کو گمراہي سے کيسے بچائيں؟