ضمير کي آواز
جوانوں کے نام امام علي کي وصيتيں (حصّہ اوّل)
تقويٰ ايک مضبوط حصار (حصّہ دوّم)
تقويتِ ارادہ (حصّہ سوّم )
جواني کے بارے ميں سوال ہو گا )حصّہ چہارم)
خاردار جھاڑي اور لکڑھارا (حصّہ پنجم)
عزتِ نفس اور بزرگواري (حصّہ ششم)
مسلمان جوان اور نفس (حصّہ ہفتم)
جوانوں کو امير المومنين کي ايک وصيت يہ بھي ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ تعلقات ميں اپنے ضمير کي صدا کو ميزان و پيمانہ قرار ديں- آپ نے اپنے فرزند کو مخاطب کر کے فرمايا : يا بُنَيَّ اجعَلْ نَفسکَ ميزاناً فيما بَينک و َ بَينَ غَيرِک ( بيٹا ! اپنے اور دوسروں کے درميان اپنے نفس کو معيار و ميزان قرار دو-نہج البلاغہ- مکتوب31)
اس اہم اخلاقي اصول سے بے توجہي' دوستانہ تعلقات ميں دراڑيں پڑ جانے اور ان کے خاتمے پر منتہي ہوتي ہے- جبکہ اس اصول کي پابندي'رشتہء دوستي کي مضبوطي اور معاشرتي روابط کي صحت کي ضامن ہے-
اگر معاشرے کے تمام افراد يک دوسرے سے ميل جول کے دوران 'اپنے ضمير کي صدا پر کان لگائے رکھيں اور ايک دوسرے کے حقوق' مفادات اور حيثيت و مقام کا احترام کريں تو سماجي روابط مستحکم تر ہو ں گے اور معاشرے ميں امن وسکون کي فضاتقويت پائے گي- ضمير کي صدا ايک طبيب کي مانندانسان کو اسکے درد اور اسکے علاج کي طرف متوجہ کرتي ہے 'نيز اس سے اسکي روح کي سلامتي کا اظہار بھي ہوتا ہے-
ايک روايت ميں آيا ہے کہ : ايک شخص رسول کريم غ– کي خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض کيا : ميں اپنے تمام فرائض و واجبات بخوبي انجام ديتا ہوں ليکن ايک گناہ ايسا ہے جو باوجود کوشش کے ميں نہيں چھوڑ پاتا ' اور وہ ہے اجنبي خواتين سے ناجائز مراسم- اس شخص کي يہ بات سن کر اصحاب رسول غ– سخت غضبناک ہوئے- يہ ديکھ کرآنحضرت غ– نے ان سے فرمايا : تم لوگ ايک طرف رہو' ميں جانتا ہوں کہ اس سے کيابات کرني ہے- پھر آپ غ– نے فرمايا : کيا تمہاري ماں 'بہن ' وغيرہ ہيں؟ اس شخص نے جواب ديا : جي ہاں -رسول خدا غ– نے فرمايا : کيا تم پسند کرو گے کہ دوسرے لوگ تمہارے گھر کي خواتين سے ايسے تعلقات رکھيں؟ اس نے عرض کيا : بالکل نہيں-آنحضرت غ–نے فرمايا : پس 'پھر تم کيسے اس ناجائز عمل کے مرتکب ہوتے ہو؟- وہ شخص شرم سے پاني پاني ہو گيا اور سر جھکا کر بولا : اب ميں عہد کرتا ہوں کہ اس عمل کا ارتکاب نہيں کروں گا-
ہر مسلمان کا فرض ہے کہ لوگوں سے تعلقات اور معاشرتي روابط کے دوران اپني اس باطني آواز کي پيروي کرے اور اپنے ضمير کے تقاضوں کے مطابق عمل کرے- امام سجاد نے فرمايا ہے : لوگوں کا حق تم پر يہ ہے کہ انہيں اذيت و آزار پہنچانے سے پرہيز کرو اور ان کے لئے وہي چيز پسند کرو جسے اپنے لئے پسند کرتے ہو' اور اس چيز کو ناپسند کرو جو تمہيں اپنے لئے ناپسند ہو -- ( بحار الانوار ـ ج 71 ـ ص 9)
اسلام 'ضمير کي صدا پر توجہ کي تاکيد کر کے 'چاہتا ہے کہ ہر انسان اپنے باطن پر ايک نگہبان متعين کرے جو اسے غصے اور دشمني کے عالم ميں بھي دوسروں پر زيادتي اور انہيں تکليف پہنچانے سے روکے رکھے- اسي بنياد پر قرآن مجيد ' نفس لوامہ (يعني اسي ضمير)کي قسم کھاتے ہوئے کہتا ہے کہ: لَآ اءُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ Oوَلَآ اءَقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ( روزِ قيامت کي قسم اور اس نفس کي قسم جو ارتکابِ گناہ اور سرکشي کے موقع پر انسان کو ملامت اور سرزنش کرتا ہے-سورہء قيامت75-آيت 1 '2) (جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
نوجوانوں کي بہتر رہنمائي
نوجوان کي اصلاح کے ليۓ ضروري عناصر