• صارفین کی تعداد :
  • 3423
  • 1/11/2014
  • تاريخ :

مسلمان جوان اور نفس

مسلمان جوان اور نفس

جوانوں کے نام امام علي  کي وصيتيں (حصّہ اوّل)

تقويٰ ايک مضبوط حصار (حصّہ دوّم)

تقويتِ ارادہ (حصّہ سوّم )

جواني کے بارے ميں سوال ہو گا )حصّہ چہارم)

 خاردار جھاڑي اور لکڑھارا (حصّہ پنجم)

 عزتِ نفس اور بزرگواري (حصّہ ششم)

ب :جذبہ بے نيازي:دوسروں کے مال پر نظر رکھنا' اور انتہائي مجبوري کے سوا کسي سے مدد و اعانت کي درخواست کرنا عزت ِنفس کو مجروح کرتا ہے- امام علي  فرماتے ہيں : المسئلةُ طَوقُ المَذَلَّةِ تَسلُُبُ العزيز عِزَّہُ والحسيب حَسَبَہ ( لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنا ذلت کاايسا طوق ہے جو صاحبان عزت سے ان کي عزت اور صاحبان شرافت سے ان کي شرافت سلب کر ليتا ہے-غرر الحکم-ج2-ص145)

ج : درست طرزِ فکر:عزتِ نفس بڑي حد تک اس بات سے وابستہ ہوتي ہے کہ خود انسان  اپنے آپ کو کس نظر سے ديکھتا ہے- ايسا شخص جو اپنے آپ کو کمزور اور ناتواں ظاہر کرتا ہے' لوگ بھي اسے ذليل اور حقير سمجھتے ہيں -لہٰذا امير المومنين  کا ارشاد ہے : الرَّجلُ حيثُ اختارَ لنفسہ اِن صانَھا ارتفعَت وَانِ ابتَذَ لَھا اتَّضَعَت ( ہر انسان کي حيثيت اور وقعت اسکے اپنے اختيار کردہ طرزِ عمل سے وابستہ ہوتي ہے- اگر وہ اپنے نفس کو پستي اور ذلت سے بچا کر رکھے تو ارفع اور بلند انساني مقام پر فائز ہو جاتا ہے اور اگراپني معنوي اور روحاني عزت ترک کردے تو پستي اور ذلت کے گڑھے ميںجا گرتا ہے-غرر الحکم-ج2-ص77)

د : ذلت آميز گفتار اور کردار سے پرہيز:ايسا شخص جوعزتِ نفس کا متمني ہو اسے چاہئے کہ ہر ايسے قول يا عمل سے اجتناب کرے جو اسکے ضعف اور ناتواني کو ظاہر کرتا ہو-يہي وجہ ہے کہ اسلام نے خوشامد اور چاپلوسي ' حالاتِ زمانے کي شکايت' لوگوں کے سامنے اپني مشکلات کے اظہار ' بے جا خود ستائي' شيخي بگھارنے اور حتيٰ عاجزي و انکساري کے بے موقع  اظہارسے بھي منع کيا ہے-

کسي مسلمان کو اس بات کا حق حاصل نہيں کہ وہ اپني عزت و شرافت اور مردانگي کے منافي خوشامد اور چاپلوسي کے ذريعے خود اپني تذليل کرے- امام علي  فرماتے ہيں : کَثَرةُ الثَّناء مَلَق يُحِدثُ الزَّھوَ وَ يُدِني مِنَ العِزَّةِ (کسي کي حد سے زيادہ تعريف و تحسين' چاپلوسي اور خوشامد ہے 'جو ايک طرف تو مخاطب ميں نخوت و تکبر پيدا کرتي ہے اور دوسري طرف (خطاب کرنے والے ميں)عزت نفس کا خاتمہ کر ديتي ہے- غرر الحکم ـ ج 4 ـ ص 595)

اپنے حالات کا رونا رونا اور اپني ذاتي مشکلات اور مسائل لوگوں کے سامنے بيان کرنا' عزت ِنفس پر کاري ضرب لگاتا ہے : امام علي  فرماتے ہيں : رَضِيَ بِالذُّل مَن کَشَفَ ضُرَّہُ لِغَبِرِہ ( ايسا شخص جو دوسروں کے سامنے اپني بد حالي اور مشکلات کا اظہار کرتا ہے' وہ درحقيقت اپني ذلت اور حقارت کو پسند کرتا ہے-غررالحکم-ج4-ص595) (جاري ہے )


متعلقہ تحریریں:

نوجوان کي اصلاح کے ليۓ ضروري عناصر

جوانوں کو گمراہي سے کيسے بچائيں؟