نئي زندگي اور احتياط
کسي بھي انسان کي زندگي ميں ازدواجي رشتے کي بہت اہميت ہوتي ہے اور شادي کے بعد کي زندگي انسان کي ايک نئي زندگي ہوتي ہے - اسلامي اصولوں کے مطابق اس بات پر تاکيد کي گئي ہے کہ لڑکے اور لڑکي کے بالغ ہونے پر ان کے جلد از جلد نکاح کر ديۓ جائيں - قران کريم،احاديث رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور اھل بيت کے ارشادات سے بھي يہ بات ظاہر ہے- ان ميں سے بہت سي کے بارے ميں سب مسلمان جانتے ہيں کہ " شادي آدھے ايمان کو پورا کرتي ہے'' اور '' ايک شادي شدہ انسان کي نماز ستر غير شادي انسانوں کي نمازوں کے برابر ہے'' تاريخ سے يہ بات ظاہر ہے کہ ہمارے بہت سے اماموں کي شادياں ابتدائي عمر ميں ہوئي تھيں- ہر دور ميں اسلام ميں شادي کي اہميت کو برقرار رکھا گيا ہے-
ابتدائي عمر ميں شادي کرنا بہت قابل ستائش بات ہے، شادي کے سماجي اثرات بھي بہت اہم ہيں. ايک سماج ، خاندانوں کے ايک گروہ پر مشتمل ہوتا ہے اور خاندانوں کو شادي سے جوڑا جاتا ہے- شادي کے بعد انسان کو بعض مشکلات کا بھي سامنا کرنا پڑتا ہے اور بہت ساري ذمہ دارياں بھي نبھانا پڑتي ہيں مگر يہ انساني زندگي کا ايک نہ رکنے والا سلسلہ ہے جسے جاري رکھنے ميں ہي انسان کو معاشرتي کاميابي ملتي ہے -
شادي ہمارے معاشرے ميں دو لوگوں کا ملاپ نہيں بلکہ دو خاندانوں کا ملاپ ہوا کرتا ہے - شادي کے بعد جدائي ايک ايسا بھيانک خواب ہے جو مرد اور عورت کي زندگي کو برباد کرکے رکھ ديتا ہے - اسلام نے ايسے حالات ميں " طلاق " کا راستہ منتخب کرنے کو کہا ہے جب کوئي بھي دوسرا راستہ موجود نہ ہو مگر اس کے ساتھ ہي طلاق کو ايک برا اور ناپسنديدہ فعل بھي قرار ديا ہے -
امام صادق عليہ السلام کا فرمان ہے کہ'' طلاق سے زيادہ اللہ کو ناپسند کچھ نہيں ہے '' اور بہت سي روايات سے يہ بات ظاہر ہے-
طلاق کسي بھي معاشرے کے لئے بہت نقصان دہ چيز ہے اور ہمارے معاشرے ميں بدقسمتي سے بہت سي طلاقيں ، شادي کے پہلے چند سالوں ميں ہوتي ہيں. نۓ نويلے جوڑے کي شادي برقرار رکھنے کے لئے عقل کي ضرورت ہوتي ہے - ان کو اس کي اہميت کا احساس ہونا چاہئے - نوجوانوں ميں شادي کي اہميت اور اس کو برقرار رکھنے کے ليۓ تربيتي اور آگاہي تعليم کي ضرورت ہوتي ہے تاکہ ايک نيا نويلہ جوڑا ان مشکلات اور مسائل سے آگاہ رہے جو شادي کے بعد پيش آ سکتے ہيں - (جاري ہے )