تقيہ اور اسلامي روايات
''تقيہ'' قرآن و سنت كے آئينہ ميں(حصّہ اول)
تقيہ اور نفاق (حصّہ دوم)
کتاب الہي ميں تقيہ (حصّہ سوم)
اسلامي روايات ميں تقيہ (حصّہ چہارم) دنيا ميں ايسے افراد بھى موجود ہيں جو انتہائي جہالت اور غلط پروپيگنڈہ كى وجہ سے كہتے ہيں كہ شيعہ كا خون بہانا قربت الہى كا ذريعہ بنتا ہے - اب اگر كوئي مخلص شيعہ جو امير المومنين - كا حقيقى پيرو كار ہو اور اس جنايت كارٹولے كے ہاتھوں گرفتار ہوجائے اور وہ اس سے پوچھيں كہ بتا تيرا مذہب كيا ہے ؟ اب اگر يہ شخص واضح بتا دے كہ ميں شيعہ ہوں تو يہ خواہ مخواہ اپنى گردن كو جہالت كى تلوار كے سپرد كرنے كے علاوہ كوئي اور چيزہے؟ كوئي بھى صاحب عقل و خرد يہ حكم لگا سكتا ہے ؟
باالفاظ ديگر جو كام مشركين عرب نے جناب عمار و ياسريا مسيلمہ كذاب كے پيروكاروں نے دو اصحاب رسول خدا كے ساتھ كيا اگر وہى كام بنو اميہ اور بنو عباس كے خلفاء اور جاہل مسلمان، شيعوں كے ساتھ انجام ديں تو كيا ہم تقيہ كو حرام كہيں اور اہل بيتكے سينكڑوں بلكہ ہزاروں مخلص پيروكاروں كى نابودى كے اسباب فراہم كريں صرف اس خاطر كہ يہ حاكم بظاہر مسلمان تھے ؟
اگر ائمہ اہل بيت تقيہ كے مسئلہ پربہت زيادہ تاكيد نہ كرتے يہاں تك كہ فرمايا ہے -
(تسعة اعشار الدين التقيہ) دس ميں سے نو حصے دين تقيہ ہے -(5)
تو بنو اميہ اور بنو عباس كے دور ميں شيعوں كے مقتولين كى تعداد شايد لاكھوں بلكہ كروڑوں تك پہنچ جاتى - يعنى انكى بے رحمانہ اوروحشيانہ قتل و غارت دسيوں گنا زيادہ ہوجاتي-
آيا ان شرائط ميں تقيہ كى مشروعيت كے بارے ميں ذرہ برابر شك رہ جاتا ہے ؟ہم يہ بات فراموش نہيں كرسكتے كہ جب اہل سنت بھى سالہا سال مذہبى اختلافات كى خاطر ايك دوسرے سے تقيہ كرتے تھے - من جملہ قرآن مجيد كے حادث يا قديم ہونے پر انكا شديد اختلاف تھا اور اس راہ ميں بہت ساروں كا خون بہايا گيا (وہى نزاع كہ جو آج محققين كى نظر ميں بالكل بيہودہ اوربے معنى نزاع ہے )كيا جو گروہ اپنے آپ كو حق پر سمجھتا تھا اگر ان ميں سے كوئي شخص مخالفين كے چنگل ميں گرفتار ہوجاتا تو كيا اسے صراحت كے ساتھ كہہ دينا چاہيے كہ ميرا يہ عقيدہ ہے چاہے اس كا خون بہہ جائے اور اس كے خون بہنے كا نہ كوئي فائدہ ہو اور نہ كوئي تاثير؟ ( جاري ہے )