کتاب الہي ميں تقيہ
''تقيہ'' قرآن و سنت كے آئينہ ميں (حصّہ اول)
تقيہ اور نفاق (حصّہ دوم)
4-تقيہ كتاب الہى ميں
قرآن مجيد نے متعدد آيات ميں تقيہ كو كفار اور مخالفين كے مقابلہ ميں جائز قرارديا ہے - مثال كے طور پر چند آيات پيش خدمت ہيں-
الف)آل فرعون كے مۆمن كى داستان ميں يوں بيان ہوا ہے -
(و قال رجل مومن من آل فرعون يكتم ايمانہ اتقتلون رجلا ان يقول ربى اللہ و قد جاء كم بالبينات ...)(1)
آل فرعون ميں سے ايك باايمان مرد نے كہ جو (موسى كى شريعت پر) اپنے ايمان كو چھپاتا تھا كہا: كيا تم ايسے مرد كو قتل كرنا چاہتے ہو جو كہتا ہے كہ ميرا پروردگار خدا ہے اوروہ اپنے ساتھ واضح معجزات اور روشن دلائل ركھتا ہے-
پھر مزيد مۆمن كہتا ہے (اسے اس كے حال پر چھوڑ دو اگر جھوٹ كہتا ہے تو اسجھوٹ كا اثر اس كے دامن گير ہوگا اور اگر سچ كہتا ہے تو ممكن ہے بعض عذاب كى جو دھمكياں اس نے سنائي ہيں وہ تمہارے دامن گير ہوجائيں)پس اس طريقے سے آل فرعون كے اس مومن نے تقيہ كى حالت ميں (يعنى اپنے ايمان كو مخفى ركھتے ہوئے ) اس ھٹ دھرم اور متعصب ٹولے كو كہ جو حضرت موسى (ع) كے قتل كے درپے تھا ضرورى نصيحتيں كرديں -
ب)قرآن مجيد كے ايك دوسرے صريح فرمان ميں ہم يوں پڑھتے ہيں -
(لايتخذ المومنون الكافرين اولياء من دون المومنين و من يفعل ذلك فليس من اللہ فى شئي الا ان تتقو منہم تقاة ً---) (2)
مومنين كو نہيں چاہيے كہ كفار كو اپنا دوست بنائيں - جو بھى ايسا كريگا وہ خدا سے بيگانہ ہے ہاں مگر يہ كہ تقيہ كے طور پر ايسا كيا جائے -
اس آيت ميں دشمنان حق كى دوستى سے مكمل طور پر منع كيا گيا ہے مگر اس صورت ميں اجازت ہے كہ جب ان كے ساتھ اظہار دوستى نہ كرنا مسلمان كى آزار و اذيت كا سبب بنے، اس وقت ايك دفاعى ڈھال كے طور پر ان كى دوستى سے تقيہ كى صورت ميں فائدہ اٹھايا جائے-
ج) جناب عمار ياسر اور انكے ماں ،باپ كى داستان كو تمام مفسرين نے نقل كيا ہے - يہ تينوںاشخاص مشركين عرب كے چنگل ميں پھنس گئے تھے -اور مشركين نے انہيں پيغمبر اكرم (ص) سے اظہار براء ت كرنے كوكہا -جناب عمار كے والدين نے اعلان لا تعلقى سے انكار كيا جس كے نتيجہ ميں وہ شہيد ہوگئے -ليكن جناب عمار نے تقيہ كرتے ہوئے انكى مرضى كى بات كہہ دي- اور اس كے بعد جب گريہ كرتے ہوئے پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں آئے تو اس وقت يہ آيت نازل ہوئي -
(من كفر بالله من بعد ايمانہ الا من اكرہ و
قلبہ مطمئن بالايمان ...)(3)
جو لوگ ايمان لانے كے بعد كافر ہو جائيں ... انكے لئے شديد عذاب ہے مگر وہ لوگ جنہيں مجبور كيا جائے-
پيغمبر اكرم (ص) نے جناب عمار كے والدين كو شہداء ميں شمار كيا اور جناب عمار ياسر كى آنكھوں سے آنسو صاف كيے اور فرمايا تجھ پر كوئي گناہ نہيں ہے اگر پھر مشركين تمھيں مجبور كريں تو انہى كلمات كا تكرار كرنا-تمام مسلمان مفسرين كا اس آيت كى شان نزول كے بارے ميں اتفاق ہے كہ يہ آيت جناب عمار ياسر اور انكے والدين كے بارے ميں نازل ہوئي اور بعد ميں رسول خدا (ص) نے يہ جملات بھى ادا فرمائے- تو اس اتفاق سے عياں ہوجاتا ہے كہ سب مسلمان تقيہ كے جواز كے قائل ہيں- ہاں يہ بات باعث تعجب ہے كہ قرآن مجيد سے اتنى محكم ادلہ اور اہل سنت مفسرين كے اقوال كے با وجود شيعہ كو تقيہ كى خاطر مورد طعن قرار ديا جاتا ہے-
جى ہاں نہ تو جناب عمار منافق تھے نہ ہى آل فرعون كا وہ مومن منافق تھا بلكہ تقيہ كے دستور الہى سے انہوں نے فائدہ اٹھايا- ( جاري ہے )