''تقيہ'' قرآن و سنت كے آئينہ ميں
دوسرا مسئلہ جس پر ہميشہ ہمارے متعصب مخالفين اور بہانہ تلاش كرنے والے افراد، مكتب اہلبيت كے پيروكاروں پر تشنيع كرتے ہيں ،''تقيہ''كا مسئلہ ہے -
وہ كہتے ہيں تم كيوں تقيہ كرتے ہو؟كيا تقيہ ايك قسم كا نفاق نہيں ہے ؟
يہ لوگ اس مسئلہ كو اتنا بڑھا چڑھا كر پيش كرتے ہيں كہ گويا تقيہ كوئي حرام كام يا گناہ كبيرہ يا اس سے بھى بڑھ كر كوئي گناہ ہے -يہ لوگ اس بات سے غافل ہيں كہ قرآن مجيد نے متعدد آيات ميں تقيہ كو مخصوص شرائط كے ساتھ جائز شمار كيا ہے -اور خود انكے اپنے مصادر ميں منقول روايات اس بات كى تائيد كرتى ہيں -اور اس سے بڑھ كر تقيہ (اپنى مخصوص شرائط كے ساتھ)ايك واضح عقلى فيصلہ ہے -خود ان كے بہت سے لوگوں نے اپنى ذاتى زندگى ميں اس كا تجربہ كيا ہے اور اس پر عمل كرتے ہيں -
اس بات كى وضاحت كے ليے چند نكات كى طرف توجہ ضرورى ہے -
1- تقيہ كيا ہے ؟
تقيہ يہ ہے كہ انسان اپنے مذہبى عقيدہ كو شديد اور متعصب مخالفين كے سامنے كہ جو اس كے لئے خطرہ ايجاد كرسكتے ہوں چھپا لے- مثال كے طور پر اگر ايك موحّد مسلمان،ہٹ دھرم بت پرستوں كے چنگل ميں پھنس جائے، اب اگر وہ اسلام اور توحيد كا اظہار كرتا ہے تو وہ اس كا خون بہا ديں گے يا اسے جان ،مال يا ناموس كے اعتبار سے شديد نقصان پہنچائيں گے - اس حالت ميں مسلمان اپنے عقيدہ كو ان سے پنہاں كر ليتا ہے تاكہ انكے گزند سے امان ميں رہے يا مثلا،اگر ايك شيعہ مسلمان كسى بيابان ميں ايك ھٹ دھرم وہابى كے ہاتھوں گرفتار ہو جائے جو شيعوں كا خون بہانا مباح سمجھتا ہے - اس حالت ميں وہ مومن اگر اپنى جان،مال اور ناموس كى حفاظت كے لئے اُس وہابى سے اپنا عقيدہ چھپا ليتا ہے تو ہر عاقل اس بات كى تصديق كرتا ہے كہ ايسى حالت ميں يہ كام مكمل طور پر منطقى ہے اور عقل بھى يہاں يہى حكم لگاتى تھے -كيونكہ خواہ مخواہ اپنى جان كو متعصب لوگوں كى نذرنہيں كرنا چاہيئے - (جاري ہے)