• صارفین کی تعداد :
  • 4558
  • 9/17/2013
  • تاريخ :

اسلام کي نظر ميں دہشت گردي

اسلام کی نظر میں دہشت گردی

اسلام اور مغرب کي نظر ميں دہشت گردي (حصّہ اول)

اسلام اور مغرب کي نظر ميں دہشت گردي (حصّہ دوم)

اسلام اور مغرب کي نظر ميں دہشت گردي (حصّہ سوم)

دہشت گردي کي گذشتہ تعريفات سے يہ نتيجہ نکالا جاسکتا ہے کہ دہشت گردي يعني غير قانوني طريقوں اور سے بغير سوچے سمجھے ہوئے کسي سياسي قدرت کو متاثر کرنے کے لئے خوف اور وحشت ايجاد کرنا - اگر چہ مذکورہ تعريفات کو بيان کرتے ہوئے ہمارا اعتماد اس بات پر ہے کہ يہ تمام تعريفيں کسي مشخص مصاديق کو ايک دوسرے سے جدا نہيں کرسکتيں اور يہ اسي طرح دہشت گردي کي تعريفات ميں مشکل ايجاد کرتي ہے اس بناء پر دہشت گردي کے اہم عناصر يہ ہيں:

1-  خوف اور وحشت ايجاد کرنا -

2-  غير قابل توقع اور بغير پيش بيني کے کام انجام دينا

3-  غير قانوني ہونا -

4-  سياسي ہدف کو مدنظر رکھنا -

دہشت گردي کي تعريف بيان کرنے اور مغرب والوں کي تعريف کو جدا کرنے کے بعد اب ہم يہ بيان کريں گے کہ کيا اسلام ميں دہشت گردي کي ايسي تعريف بيان ہوئي ہے يا نہيں؟ اور کيا اسلام بھي دہشت گردي سے جنگ کرنے کے لئے کسي تدبير کو بروئے کار لايا ہے يا نہيں؟

يقينا ”‌دہشت گردي“ کي اصطلاح ، ايک جديد اصطلاح ہے جس کے متلعق صدر اسلام ميں کوئي بحث نہيں ہوئي ہے، ليکن آيات، روايات اور فقہاء کي عبارت ميں کچھ ايسي تعبيرات ملتي ہيںجو اس بات کي حکايت کرتي ہيں کہ اسلام نے انسان کي زندگي کے ايسے پہلووں پر بھي روشني ڈالي ہے اور اسلامي متون ميں ايسي عبارتيں موجود ہيں جو دہشت گردي کے مفہوم سے نزديک ہيں ،اس حصہ ميں کچھ مفاہيم کي طرف اشارہ کريں گے تاکہ محققين مفصل بحث کرنے کے لئے اپني تحقيق و جستجو کو آگے بڑھاسکيں -

قرآن کريم ميں ايک بہت اہم مفہوم ”‌ارھاب“ ہے جس کي بناء پر بعض لوگ کوشش کرتے ہيں کہ اسلام پر دہشت گردي کا حکم لگائيں، اگر چہ قرآن کريم ميں لفظ ”‌ارھاب“ يا ارھابيون“ نہيں آيا ہے ليکن اس کے مشتقات ، مختلف صيغوں ميں بيان ہوئے ہيں - ليکن اس بات کي طرف توجہ ضروري ہے کہ ”‌ارھاب“ يا ”‌ارھابيون“ کا کوئي ايک صيغہ بھي عصر حاضر ميں سياست اس کے اس لفظ کے معني ميں نہيں ہے اور اس کے معني ان دونوں سے کاملا مختلف ہيں-  اس بناء پر جو لوگ ان آيات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے دہشت گردانہ اعمال کي توجيہ کرتے ہيں وہ درست نہيں ہے اور نيز جو لوگ قرآن کريم ميں اس طرح کي آيات کا بہانہ کرتے ہوئے دين اسلام کو دہشت گردي سے متہم کرتے ہيں وہ لوگ بھي غلطي سے کام ليتے ہيں - اس بات کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کريم کي بعض آيات کي طرف اشارہ کرتے ہيں:

1-  يا بَني اظ•ِسْرائيلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتي اَنْعَمْتُ عَلَيْکُمْ وَ اَوْفُوا بِعَہْدي اُوفِ بِعَہْدِکُمْ وَ اظ•ِيَّايَ فَارْہَبُون“- اے بني اسرائيل ہماري نعمتوں کو ياد کرو جو ہم نے تم پر نازل کي ہيں اور ہمارے عہد کو پورا کرو ہم تمہارے عہد کو پورا کريں گے اور ہم سے ڈرتے رہو-(سورہ بقرہ ،آيت 40) - اس آيت ميں ”‌فارھبون “ کے معني خوف و ہراس کے بيان ہوئے ہيں -(جاری ہے)

 

 

متعلقہ تحریریں :

مسلم بہن بھائي بڑي آساني سے غير مسلموں کو  کافر کہتے ہيں

اسلام کي ترويج ميں رکاوٹيں