دہشت گردي کي تعريف
اسلام اور مغرب کي نظر ميں دہشت گردي
لغت ميں دہشت گردي
دہشت گردي کا شمار ان الفاظ ميں ہوتا ہے جن کي اصل مغربي لغت ميں پائي جاتي ہے لہذا اس وجہ سے اہل لغت کي قديم کتابوں ميں يہ لفظ نہيں ملتا ، ليکن معاصرکے بعض لغت دانوں نے اس لفظ کو اپني لغات ميں بيان کيا ہے ، منجملہ لغت نامہ دہخدا نے ”دہشت گردي“ کي تعريف ميں لکھا ہے : ”ٹرور“ Terreur سے ماخوذ ہے جس کے معني فارسي ميں اسلحہ کے ذريعہ سياسي قتل کے رائج ہوگئے ہيں اورآج عربي لفظ ”اھراق“ کو ٹرور کے مقابلہ ميں استعمال کرتے ہيں ، فرانسيسي لغت ميں يہ لفظ خوف و وحشت کے معني ميں آيا ہے اور دہشت گردي کي حکومت اس انقلابي حکومت کے اصول ميں سے ہے جو کہ ژيروندوں (31 مئي 1973 سے 1974 تک)کي حکومت کے ساقط ہونے کے بعد فرانس ميں مستقر ہوئي اور اس نے بہت سے لوگوں کو سياسي پھانسي پر چڑھايا(2) -
اس لغت ميں دہشت گردي کي تعريف ميں بيان ہوا ہے : ” اصل حکومت يعني وحشت و فشار جو کہ فرانس (1993 سے 1994 تک)کي حکومت کے قوانين ميں سے ايک قانون ہے - فارسي زبان ميں يہ کلمہ ايسي اصل پر اطلاق ہوتا ہے جس ميں سياسي قتل اور ٹرور سے دفاع ہوتا ہے (3) -
جيسا کہ آپ نے ملاحظہ کيا کہ لغت کي کتابوں ميں اس لفظ کے اصطلاحي معني کي طرف بھي توجہ کي گئي ہے اور اس لفظ کے بہتر معني کو درک کرنے کے لئے اس کے اصطلاحي مفہوم سے متعلق بحث کرنے پر مجبور ہيں البتہ اہل لغت کي کتابوں ميں لفظ ٹرور پايا جاتا ہے ليکن يہ لفظ دہشت گردي کے مساوي نہيں ہے اور ان ميں کچھ فرق پايا جاتا ہے جن کي طرف بعد ميں آنے والي بحثوں ميں اشارہ کيا جائے گا -(جاری ہے)
حوالہ جات:
2- علاکبر دہخدا، لغتنامہ دہخدا، تہران، دانشکدہ ادبيات دانشگاہ تہران، 1343، ج 15، ص 636.-
3- گذشتہ حوالہ ، ص 636-
متعلقہ تحریریں:
رسول اللہ (ص) سے حاجات مانگنا
يکم شوال مومن کے انعام کا دن