اسلام اور مغرب کي نظر ميں دہشت گردي
بعض اسلامي فقہاء اور متفکرين کا نظريہ ہے کہ ”محاربہ“ اور ”فساد في الارض“ ايسے الفاظ ہيں جو لفظ دہشت گردي کے مترادف ہيں اور يہ کامل طور سے ايک دوسرے پر منطبق ہيں -
آج کے زمانہ ميں ”دہشت گردي“ کا شمار ان اہم مباحث ميں ہوتا ہے جن کے متعلق سياست مداراور سياسي متفکرين بہت زيادہ بحثيں کرتے ہيں اور اس موضوع کي اہميت کي وجہ سے متعدد مکتوب اور غير مکتوب آثار مدون ہوئے ہيں - ليکن اس بات ميں شک نہيں کرنا چاہئے کہ گياہ ستمبر کے حوادث کے بعد سے اسلام پر بہت زيادہ حملے ہونے شروع ہوگئے ہيں اور اس کے متعلق مغرب ميں لوگوں کو تعليم بھي دي جاتي ہے ، اسلام کے خلاف مغرب کے يہ حملات اس قدر نماياں ہيں کہ جس کا کوئي بھي انسان انکار نہيں کرسکتا ، دہشت گردي سے مقابلہ کرنے کے بہانہ سے اسلام کے احکام اور تعليمات پر مغرب والوں نے بہت شدت کے ساتھ حملے کئے اورمسلمانوں کو دہشت گرد کے عنوان سے پہچنوانے لگے اور اس کے ذريعہ وہ اپني حاکميت کو ثابت کرنے کے لئے کوئي دقيقہ اٹھا نہيں رکھتے - وہ يہ نہيں جانتے کہ اسلام ، پہلے ہي دن سے دہشت گردي کامقابلہ کررہا ہے ، جس وقت دنيا ميں بربريت کا بول بالاتھا ، اس وقت اسلام نے انسان کي جان ، مال اورعزت و آبرو کي حفاظت کا اعلان کيا -
دوسري طرف ابھي تک بين الاقوامي معاشرہ ”دہشت گردي “ کي تعريف نہيں کرپايا ، يہاں تک کہ مشترک ممالک کے ساتھ متعدد مذاکرات ہونے کے بعد بھي وہ کسي نتيجہ پر نہيں پہنچا اور يہي وجہ ہے جس کي وجہ سے قدرت طلب ممالک کو بہانے فراہم ہورہے ہيں کہ وہ دہشت گردي کي اپني بنائي ہوئي تعريف کي بنياد پر اپنے ممالک کے اہداف و مقاصد کو آگے بڑھا رہے ہيں اور اپنے دشمنوں سے ”دہشت گردي“ کے نام پر جنگ کررہے ہيں -
اس وجہ سے ضرورت ہے کہ دہشت گردي سے متعلق اسلام کے نظريہ کو بيان کرنے سے پہلے اس لفظ کي تعاريف کو بيان کيا جائے اس حصہ کي مشکلات کوآسان کيا جائے - يہ بات بھي واضح ہے کہ اس لفظ کي اصل مغرب کي ادبيات سے متعلق ہے اس لئے اس مسئلہ ميں مغرب کے نظريات کي طرف بھي توجہ کرنا ضروري ہے، اس کے بعد اسلام کے نظريات کو بيان کيا جائے اور دہشت گردي کي تعريف ميں موجود مشترک نکات کي طرف توجہ کرتے ہوئے اسلام کے احکام سے دہشت گردي کے خلاف نظريات کو بيان کيا جائے -
اس تحقيق ميں اس مسئلہ کو ثابت کرنے کي کوشش کي گئي ہے کہ اسلام دہشت گردي کا دين نہيں ہے بلکہ اسلام نے دہشت گردي سے مقابلہ کرنے کے لئے اساسي راہ حل بھي بيان کئے ہيں ، اسي طرح اس تحقيق ميں اس بات کي بھي کوشش کي گئي ہے کہ دہشت گردي کي تعاريف کے مشترک ہونے کي وجہ سے اسلام کے نظريہ کو ان کے متعلق بيان کيا جائے ليکن اس تحقيق کي محدوديت اس بات کي اجازت نہيں ديتي کہ ہم اسلام کي بيان کردہ جديد تعريف کے ذريعہ دہشت گردي کے مصاديق کو بھي بيان کريں اس وجہ سے ايک دوسري تحقيق کي ضرورت ہے جس ميںاسلام کي بلند تعليمات اور احکام کو بيان کيا جائے اور اس کے ذريعہ سے دہشت گردي کي ايک جامع تعريف حاصل کي جائے جو آج کي تعريف سے باکل الگ ہے اور اس کي بانسبت کامل تر ہے -(جاری ہے)
حوالہ جات:
1- جيمز دردريان و ديگران، تروريسم، گردآور و ويرايش عليرضا طيب، ترجمہ وحيد بزرگ و ديگران، تہران، نشر ن، 1382، ص 328 / الہام امين زادہ، تفاوت تروريسم و تلاش برا ي دستيابي بہ حق تعيين سرنوشت، فصلنامہ راہبرد، تہران، مرکز تحقيقات استراتژيک، ش 21 (پاييز 1380)، ص 85 / يعقوب علي برجي، تروريسم از نگاہ فقہ، فصلنامہ طلوع، قم، مدرسہ امام خميني(قدس سرہ)، ش 3 و 4 (پاييز و زمستان 1381)، ص 4.-
متعلقہ تحریریں:
پاکستان کے قائد اور اسلامي رياست کا حصول
اپني عيد ميں دوسروں کو شريک کريں