خدا کا عدل
عدل الہی (حصّہ اوّل)
اور احکام سازي کے سلسلے ميں عدالت الٰہيہ کے بارے ميں کہا جاسکتا ہے کہ خداوند متعال نے انسان کو ان اعمال و افعال کا حکم ديا ہے جن ميں اس کي خير و مصلحت ہے اور ان چيزوں سے منع فرمايا ہے جو اس کي تباہي اور سقوط و تنزلي کا سبب بن سکتي ہيں تا کہ اس کے کمال کے اسباب فراہم کئے جاسکيں اور چونکہ الٰہي فرائض کا مقصد يہ ہے کہ انسان ان کے نتائج اور ثمرات تک پہنچے اور ان فرائض کا خدا کے لئے کوئي فائدہ نہيں ہے اسي لئے حکمتِ الٰہيہ کا تقاضا يہ ہے کہ يہ فرائض مُکَلَّفين (جن پر يہ احکام فرض کئے گئے ہيں) کي قوت و صلاحيت کي حد تک ہو؛ کيونکہ جس فريضے اور حکم کي تعميل ممکن نہ ہو وہ حکم مہمل اور بےہودہ ہوگا-
چنانچہ تکليف (يعني فرائض عائد کرنے اور حکم دينے) کے حوالے سے عدل کي رعايت ہوتي ہے کيونکہ ظاہر ہے کہ اگر انسان پر ايسے فرائض عائد کئے جائيں جو اس کي قوت سے بالاتر ہوں تو ان پر عمل ممکن نہ ہوگا اور يہ تفويض فرائض بيہودہ ہوگي (اور خدا بيہودہ اعمال سے برتر و بالاتر ہے)-
بندوں کے درميان قضاوت (اور فيصلہ) کرنے کے حوالے سے عدل اس نکتے سے ثابت ہوتي ہے کہ يہ کام انجام پاتا ہے تاکہ واضح کيا جائے کہ افراد کس قدر پاداش و جزا يا سزا و کيفر کا استحقاق رکھتے ہيں اور اگر قسط و عدل کے خلاف ہو (يعني اگر جزا اور سزا کي بنياد عدل و انصاف نہ ہو) تو قضا کا مقصد ہي ختم ہوکر رہے گا-
بالآخر جزا اور سزا دينے کے سلسلے ميں عدل، خلقت کے اصل مقصد کو مدنظر رکھ کر، ثابت ہوتا ہے کيونکہ جس نے انسان کو اچھے اور برے اعمال کے نتائج و ثمرات تک پہنچنے کے لئے خلق فرمايا ہے، اگر اس کو اس کے اعمال کے تقاضوں کے برعکس، جزا يا سزا دے تو اس کي خلقت کا ہدف و مقصد حاصل نہ ہوسکے گا-
پس عدل الہي ـ اس کے صحيح معاني پر اور اس کے تمام مظاہر ميں ـ يہ ہے کہ اس کي ذاتي صفات اس کي حکيمانہ اور عادلانہ روش کا سبب ہيں اور کوئي بھي صفت ـ جو ظلم و ستم يا لغو و بيہودگي اور بے مقصد و مہمل افعال کا تقاضا کرے ـ اس کي ذات ميں موجود نہيں ہيں-
منبع: آموزش عقائد، ج 1، صص 162- 164.
ترجمہ : فرحت حسین مہدوی
متعلقہ تحریریں:
عدل الہٰي کے دلائل
جبر و اختيار کا خلاصہ بحث