صفحه اصلی تبیان
شبکه اجتماعی
مشاوره
آموزش
فیلم
صوت
تصاویر
حوزه
کتابخانه
دانلود
وبلاگ
فروشگاه اینترنتی
ھفتہ 23 نومبر 2024
فارسي
العربیة
اردو
Türkçe
Русский
English
Français
تعارفی نام :
پاسورڈ :
تلاش کریں :
:::
اسلام
قرآن کریم
صحیفه سجادیه
نهج البلاغه
مفاتیح الجنان
انقلاب ایران
مسلمان خاندان
رساله علماء
سروسز
صحت و تندرستی
مناسبتیں
آڈیو ویڈیو
اصلی صفحہ
>
اسلام
>
اصول و اعتقادات امامیہ
>
عدل
1
انسان کا اختیار اور عدل
بعض لوگ عدل و انصاف کو محدودیت کا معیار سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ انسان پیدائشی ـ اور خدادادی طور ـ پر عدل کے حسن و خوبصورتی اور ظلم کے بھونڈے پن سے آگاہ ہے اور اگر کوئی عادلانہ و منصفانہ عمل کرے اور ظلم سے دوری و اجتناب کرے تو وہ زندگی میں سعادت کے
آزادی عدل اور دین
انسان تکوینی اور پیدائشی طور پر ایک آزاد موجود اور انتخاب و اختیار کا مالک ہے لیکن اس کے اختیار کی عملداری نامحدود نہیں ہے اور انسان ہر کام نہیں کرسکتا بلکہ اس کا اختیار علت و معلول (Cause & Effect) کے نظام کی حدود اور عالم فطرت پر حکم فرما قوانین کے دائر
خدا کا عدل
اور احکام سازی کے سلسلے میں عدالت الٰہیہ کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ خداوند متعال نے انسان کو ان اعمال و افعال کا حکم دیا ہے جن میں اس کی خیر و مصلحت ہے اور ان چیزوں سے منع فرمایا ہے جو اس کی تباہی اور سقوط و تنزلی کا سبب بن سکتی ہیں تا کہ اس کے کمال کے
عدل الٰہی
خداوند متعال قدرت و اختیار کے بالاترین مراتب و مدارج کا مالک ہے اور ہر ممکن کام کو، کسی بھی جابر اور قاہر قوت کے زیر اثر آئے بغیر، انجام دیتا ہے یا انجام نہیں دیتا البتہ وہ ان تمام امور کو انجام نہیں دیتا جنہیں وہ انجام دے سکتا ہے بلکہ جن امور کا ارادہ کر
عدل و انصاف کي دعوت
انسان کی صفات، خدا وند متعال کی صفات کا ایک پر تو ہو نا چاہئیں تا کہ انسانی معاشرے میں الہٰی صفات کا نور پھیلے ۔اسی اصول کی بنیاد پر جس قدر قرآن مجید عدل الہٰی کو بیان کر تا ہے، اسی قدر انسانی معاشرے اور ہر انسان میں عدل و انصاف قائم کر نے پر اہمیت دیتا ہ
عدل الہٰي کے دلائل
پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری عقل اشیاء کی ”خوبی“اور ”بدی“ کو قابل توجہ حد تک درک کرتی ہے
جبر و اختیارکا خلاصہ بحث
عقلی اور قرآنی دلائل كے پیش نظر انسان اپنے فعل میں صاحب اختیار ھے اور اپنے تصرفات میں مكمل آزاد ھے اور كوئی جبر اكراہ نھیں ھے
حسن و قبح كے معنی
حسن وقبح كا اطلاق كمال ونقص پر هوتا ھے، لہٰذا علم حسن ھے اور جھل ونادانی قبیح، شجاعت وكرم حسن ھیں اور ان كے مقابلہ میں بزدلی اور بخل قبیح ھیں
”جبر“ كا عقیدہ ركھنے والے
جو بات ”كسب“ كے لغوی معنی اور قرآن كریم میں استعمالات سے سمجھی جاتی ھے وہ یہ ھے كہ كسب اختیار كے ذریعہ انجام شدہ فعل كو كہتے ھیں
اعتراض چند وجوھات سے مردود اور باطل ھے
كیونكہ خداوندعالم كے بارے میں حكمِ عقل كے فرض كی گفتگو نھیں ھے بلكہ اس چیز كا بیان ھے جس سے بندوں كے معاملات میں فضل ولطف كی امید هو، كیونكہ ھم اس بات كو مكمل طور پر قبول كرتے ھیں
عذاب، خود اختیا رپر دلیل ھے
اگر (كھیں) شرك كیا تو یقیناً تمھارے سارے اعمال اكارت هوجائیں گے اور ضرور تم گھاٹے میں آجاؤگے
اختیاركے سلسلہ میں قرآن مجید كی وضاحت (حصّہ دوّم)
لیكن قرآن مجید كی درج ذیل آیت سے یہ استدلال كرنا كہ افعالِ انسان، خداوندعالم كی ایجاد ھے
اختیاركے سلسلہ میں قرآن مجید كی وضاحت
قرآن مجید میں ایسی بہت سی آیات موجودھیں جو اختیار كو بہترین طریقہ سے ثابت كرتی ھیں، اور واضح طور پر اس بات كی طرف اشارہ كرتی ھیں كہ انسان اپنے افعال واعمال میں مكمل طور پر مختار ھے اوراگر ھر فعل اس انسان كی طرف منسوب ھے
جبر و تفویض
گذشتہ مثال مسئلہ ”جبر وتفویض“ كو اچھی طرح واضح كردیتی ھے كیونكہ ایك انسان حیات وقدرت كے عطا كرنے والے كا محتاج ھے جو ھر حال میں خدا كی طرف سے عطا هوتی ھے لہٰذا ”تفویض“ بھی نھیں
جبر و اختیار کی وضاحت
ھرانسان فطری طور پر اس بات كو سمجھتا ھے كہ وہ بہت سے كاموں پر قادر ھے اور وہ جن كاموں كا ارادہ كرے ان كو انجام دے سكتا ھے
جبر و اختیار
”جبر واختیار“ كا مسئلہ ایك طولانی بحث كا حامل ھے چند صفحات میں اس كو بیان نھیں كیا جا سكتا ۔
اسلام اور عدالت اجتماعی (حصّہ دوّم)
اے مسلمانو! آپ لوگ ھمارے نزدیک رومیوں سے زیادہ محبوب ھیں اگرچہ رومی ھمارے ھم مذھب ھیں لیکن چونکہ آپ لوگ عادل ، با وفا ، مھربان و نیک ھیں اس لئے ھم لوگ آپ کو چاھتے ھیں۔
اسلام اور عدالت اجتماعی
اسلام تو ساری دنیا میں عدالت کو پھیلانے کے لئے آیا ھے ۔ وہ اجتماعی عدالت اور بین المللی عدالت قائم کرنا چاھتا ھے
اسلام کا نظام عدل
دنیا کے معاشرتی نظام چلانے اور انسانوں کو مہذب بنانے کے لیۓ قوانین کی ضرورت پڑتی ہے ۔
امام علی معلم عدالت
امام کے خطبوں، خطوط ا وراپنے عمال نیزمددگاروں کو دئے گئے فرامین میں ہمیشہ رعایا کی ایک ایک فرد کیساتھ عدل سے پیش آنے کی تاکید کی گئی ہے
امام علی (ع) کی نگاہ میں عدل کی اساسی بنیاد
اس میں شک نہیں کہ ہرشخص خاص طورسے اگر وہ اقتدارکی کرسی پربیٹھا ہوعدل کا مدعی ہے لیکن ان میں سے سچا کون ہے اس کا معیار کیا ہے
عدالت تمام انسانی معاشروں کی ضرورت ھے
عدالت تمام انسانی معاشروں کی ایک ضرورت ھے ۔ یہ ضرورت آج بھی ھے اور آئندہ بھی رھے گی ۔ عدالت وہ مشترک عنصر ھے جس پر سب جمع ھو کر کام کر سکتے ھیں خواہ ھندو ھوں یا مسلمان ،عیسائی ھوں یا یھودی ۔ یہ کون سا انصاف ھے ...کہ
عدالت علوی
مسیحی مصنف جارج جرداق اپنی کتاب ” الام علی(ع) :صوت عدالة الانسانیة “ (امام علی: عدالت انسانی کی آواز ) میں لکھتا ھے کہ انسانی معاشرہ میں واحد لیڈر علی بن ابی طالب (ع) ھیں جنھوں نے انسانیت اور عدالت کی بنیاد پر بیت المال کی تقسیم کی ھے
امام علی (ع) کی نگاہ میں اجتماعی عدالت سے متعلق حکومت کی ذمہ داری
روایات اوربالخصوص نہج البلاغہ کی روشنی میں عدالت کا معاشرے کے اندربرقرارکرنے کوحکومت اسلامی کا سب سے بڑا مقصد سمجھا جاتا ہے اورقرآن کریم کی نگاہ میں بھی انبیاء علیہم السلام کا ہدف بعثت اورآسمانی ادیان کی آمد کو ...انسانی نظام حیات
عدل
خدا کے تمام افعال حکمت اور مصلحت کے ساتھ ھوتے ھيں ۔ وہ کوئي بُرا کام نھيں کرتا اور نہ کسي ضروري کام کو ترک کرتا ھے ...
1
اصلی صفحہ
ہمارے بارے میں
رابطہ کریں
آپ کی راۓ
سائٹ کا نقشہ
صارفین کی تعداد
کل تعداد
آن لائن