عدل الٰہي
خداوند متعال قدرت و اختيار کے بالاترين مراتب و مدارج کا مالک ہے اور ہر ممکن کام کو، کسي بھي جابر اور قاہر قوت کے زير اثر آئے بغير، انجام ديتا ہے يا انجام نہيں ديتا البتہ وہ ان تمام امور کو انجام نہيں ديتا جنہيں وہ انجام دے سکتا ہے بلکہ جن امور کا ارادہ کرتا انہيں انجام ديتا ہے-
عدل الہي يا عدالت الہيہ کا موجودات کي تکوين، احکام کے تعيين اور احکام سازي اور قيامت کے روز احتساب اور حساب و کتاب کے وقت، مشاہدہ کيا جاسکتا ہے؛ چونکہ اللہ تعالي کمالِ محض ہے، اسي لئے اس کا ارادہ بنيادي طور پر مخلوقات کے کمال اور ان کي خير و نيکي کي خاطر ہوتا ہے اگر ايک مخلوق کے وجود کا لازمہ لازمہ يہ ہو کہ دنيا ميں شُرور (برائياں) اور نقائص معرض وجود ميں آئيں تو شرّ اور برائي کا پہلو درحقيقت بالتَّبَع مقصود [يا فرعي مقصود] ہوگا-
پس اللہ کي صفات کماليہ کا تقاضا يہ ہے کہ جہان کي تخليق کـچھ اس طرح سے ہو کہ وہ مجموعي طور پر زيادہ سے زيادہ ـ ممکنہ ـ خير و کمال کا حامل ہو اور يہيں سے اللہ کے لئے صفتِ حکمت ثابت ہوتي ہے-
انسان کي اصل خصوصيت، اختيار اور آزادانہ ارادہ ہے اختيار و انتخاب کي قوت وجودي کمالات ميں سے ايک ہے- وہ موجود جو اس خصوصيت اور اس کمال کا مالک ہو وہ اس موجود سے زيادہ کامل ہے جو اس خصوصيت سے عاري ہو- تاہم مختار ہونے کا لازمہ يہ ہے کہ وہ اچھے اور مناسب کام انجام دے اور انتہائي اور ابدي کمال کي طرف گامزن ہوسکے اور ساتھ ہي برے اور ناپسنديدہ کام انجام دينے سے اجتناب کرکے خسران اور ابدي شقاوت و بدبختي کي طرف گراوٹ سے بچ سکے- البتہ خدا کا ارادہ اصالۃً اور بنيادي طور پر انسان کے کمال و ارتقاء سے متعلق ہے؛ ليکن چونکہ انسان کے اختيار کا لازمہ يہ بھي ہے کہ وہ سقوط اور تنزلي کي طرف بھي جاسکتا ہے اسي لئے اس طرح کا اختياري سقوط اور تنزلي بھي بالتبع الہي ارادے کے نتيجے ميں واقع ہوگا- [يعني خدا نے انسان کو اختيار اور ارادے کي خصوصيت سے نوازا اور اس کو کمال کي طرف بلايا ليکن اس نے اسي اللہ عطيئے سے فائدہ اٹھا کر تنزلي کا راستہ اپنايا چنانچہ ہدف کمال تھا ليکن فرعي ہدف ممکنہ تنزلي بھي ہوسکتي ہے]-
منبع: آموزش عقائد، ج 1، صص 162- 164.
ترجمہ : فرحت حسین مہدوی
متعلقہ تحریریں: