پاکستان کے قائد اور اسلامي رياست کا حصول
قائداعظم، علامہ اقبال کے ليے کيا خيالات رکھتے تھے اس کا اندازہ قائد اعظم کے ان الفاظ سے بخوبي کيا جا سکتا ہے جو انھوں نے علامہ اقبال کے انتقال پر ادا کيے- قائداعظم نے کہا کہ:
’’وہ ميرے ذاتي دوست، فلسفي اور رہنما تھے، وہ ميرے ليے تشويق، فيضان اور روحاني قوت کا سب سے بڑا ذريعہ تھے‘‘-
اسي طرح 1940 ميں جب اقبال ڈے منايا گيا تو قائداعظم نے ان الفاظ کو ادا کيا-
’’اگر ميں ہندوستان ميں ايک مثالي اسلامي رياست کے حصول تک زندہ رہا اور اس وقت مجھے يہ اختيار ديا گيا کہ ميں اقبال کے کلام اور مسلم رياست کي حکمراني ميں سے ايک کا انتخاب کرلوں تو ميں اقبال کے کلام کو ترجيح دوں گا‘‘-
مندرجہ بالا اقتباسات واضح کر رہے ہيں کہ اقبال اور قائداعظم جيسے اکابرين کے عليحدہ وطن اور اس کے تشخص و مستقبل کے بارے ميں کس قسم کا نظريہ تھا- اقبال کي تيسرے دور کي تمام شاعري کيا پيغام دے رہي ہے؟ سب جانتے ہيں، لہٰذا ايسے ميں يہ کہنا ہے قيام پاکستان کا مقصد مسلمانوں کے ليے محض زمين کا ايک ٹکڑا لينا تھا اور بس! قطعي طور پر غلط، غلط اور غلط ہے-
لا شبہ حالات دگر گوں ہيں ليکن اس کے باوجود آزادي ايک ايسي نعمت ہے جو بذات خود اس بات کا تقاضا کرتي ہے کہ اسے منايا جائے- ہم وطن عزيز کي صورت ميں جس نعمت خدادا سے محظوظ ہو رہے ہيں اس کا شکر ادا نہ کرنا خود اپنے ساتھ زيادتي ہو گي- آزادي کا جشن منانا زندہ قوموں کا شعار ہے اور اس سے قوم کو ايک نيا جوش، ايک نيا جذبہ اور ايک ولولہ تازہ ملتا ہے- ہم آج جن حالات سے گزر رہے ہيں يقينا ان کي وجہ سے مايوسي اور بے يقيني پيدا ہو سکتي ہے اور ہو رہي ہے- اور مايوسي ايک ايسي مہلک وبا ہے جب يہ کسي قوم ميں پيدا ہو جائے تو پھر ترقي کا عمل يکسر رک جاتا ہے- کيوں کہ آگے بڑھنے اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ صرف اسي ميں پيدا ہو سکتا ہے جس ميں اميد کا ديا روشن ہو، جسے بہتر مستقبل کا يقين ہو اور جسے اس بات پر بھروسہ ہو کہ ميري محنت ضائع نہيں ہو گي بلکہ اس کے نتيجے ميں بہتر حالات اور ترقي ملے گي-
موجودہ حالات ميں جشن آزاد کو اس کے تمام تر تقاضوں کے مطابق منانا، عوام ميں آزادي کا شعور بيدار کرنا اور وطن عزيز کي ترقي، بہتري اور استحکام کے ليے عوام پاکستان کے دلوں ميں ايک نيا جوش اور ولولہ پيدا کرنا وقت کي ضرورت ہے- اس کے ليے ارباب حکومت سے لے کر نيچے تک ہر ہر ذي شعور شہري کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا - وقت ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ
اب صف ماتم اٹھا دو، نوحہ خواني چھوڑ دو
موت ہے عنوان جس کا وہ کہاني چھوڑ دو
زندگي کو کوندتي آواز سے آواز دو
زندگي کے ہاتھ ميں عزم و عمل کا ساز دو
نغمہ وہ چھيڑو کہ گونج اٹھے فضائے کائنات
وجد ميں آجاۓ ہستي رقص ميں آۓ حيات
تم تو منزل پر ہو پھر يہ بے دلي و ياس کيوں
بے کسي کا اپني ہے ناحق تمہيں احساس کيوں
اس وقت وطن عزيز جن مسائل کا شکار ہے ان ميں سب سے اہم عدم استحکام، عدم يکجہتي، عدم انصاف، بد عنواني اور امن و امان کي دگر گوں صورتحال ہے- ان مسائل سے نبرد آزما ہونے اور بہتر مستقبل کي طرف پيش رفت کرنے کے ليے قومي دن غير معمولي اہميت کے حامل ہوتے ہيں- خاص طور پر قومي يکجہتي کو برقرار رکھنے اور مضبوط تر کرنے ميں ان کا کردار بہت اہم ہے- جب ملک کے طول و عرض ميں ايک ہي دن، ايک ہي وقت ميں ايک ہي نعرہ، ايک ہي صدا بلند ہو گي، ايک مقصد اور ايک ہي منزل کي جانب سفر کي تياري ہو گي تو يقينا انتشار و افتراق ميں کمي آئے گي اور يکجہتي کي فضا قائم ہو گي-
ليکن يہ سب اس وقت تک ممکن نہيں جب تک ارباب حل و عقد اور صاحبان اقتدار صدق دل سے ميدان عمل ميں نہيں اترتے- اس يوم آزادي کو بطور ايک ہديہ خداوندي سمجھ کر محروموں کي محروميوں کا ازالہ نہيں کرتے ، مجبوروں کا سہارا نہيں ديتے اور جن کو شکوے شکايت ہيں ان کے شکوے دور نہيں کرتے- ہمارے کچھ فيصلوں سے اپنے ہي کچھ لوگوں پر ظلم ہوئے جس کي بنا پر وہ اپنا ہي گھر تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہيں- اس موقع پر بطور خاص ان کو منانے اور ايک بار پھر پيار و محبت کے بيج بونے کے ليے ايک قابل عمل حکمت عملي طے کرني ہو گي-
متعلقہ تحریریں :
يوم آزادي پاکستان مبارک باد
يوم آزادي کے روز