کيا قبل از اسلام شب قدر تھي؟
ايک روايت کے مطابق شب قدر رسول اللہ (ص) کے زمانے تک محدود نہيں ہے اور سابقہ زمانوں ميں بھي تھي- علامہ مجلسي (رح) امام جواد (ع) سے روايت کي ہے:
"خداوند متعال نے شب قدر کو اس عالم کي خلقت کي ابتداء ہي ميں خلق فرمايا اور اس ميں نبي اولين کو ـ جو آئيں گے ـ خلق فرمايا اور اولين وصي کو خلق فرمايا ـ جو آئے گا ـ اور مقرر فرمايا کہ يہ شب ہر سال ہو اور اس رات کو امور کي تفسير اتاري جاتي رہے"- (1)
دوسري طرف سے ايک حديث ميں رسول اللہ (ص) سے مروي ہے:
"خداوند متعال نے ميري امت کو شب قدر عطا فرمائي جبکہ مجھ سے قبل کوئي بھي امت اس نعمت سے بہرہ مند نہ تھي"- (2)
اگر ان روايات کو جمع کيا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ليلۃالقدر اصولي طور پر پہلے بھي موجود تھي؛ ليکن کثير اور غيرمعمولي فضيلتيں اس رات ميں اسلامي کے لئے قرار دي گئي ہيں وہ سابقہ امتوں کے لئے نہ تھيں؛ لہذا شب قدر ايسي واقعيت اور حقيقت ہے جو عالم وجود کے لئے مقدر کي گئي ہے-
سورہ مبارکہ قدر سے سمجھا جاتا ہے کہ ہر سال ايک رات ہے "قدر" يے نام سے جو قدر و قيمت اور فضيلت کے لحاظ سے ہزار مہينوں سے بہتر ہے- اس شب اللہ کے فرشتے اپنے بڑے فرشتے (روح) کے ہمراہ ايک سال کے لئے اللہ کي طرف سے مقرر کردہ فرمان يا تقدير کے ساتھ، نازل ہوتے ہيں- اس سورت اور سورہ دخان کي ابتدائي آيات کي تفسير ميں جو حديثيں وارد ہوئي ہيں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے شب قدر کو ايک سال کے مقدرات کو "زمانے کے ولي مطلق" کے سامنے پيش کرتے ہيں اور ان کے سپرد کرتے ہيں- يہ حقيقت ہميشہ تھي اور ہميشہ رہے گي-
رسول اللہ (ص) کے زمانے ميں فرشتوں کے نزول کا مقام نبي مصطفٰي کا آستان مقدس تھا اور يہ امر سب کے نزديک مسلّم ہے- تاہم آپ (ص) کے وصال کے بعد کے زمانے کے بارے ميں کہنا چاہئے کہ: شب قدر رسول اللہ (ص) کے بعد بھي ہے- سورہ قدر اور سورہ دخان کي پہلي آيات کے ظاہري مفہوم کے علاوہ، روايات ميں بھي يہ روايت واضح طور پر بيان ہوئي ہے- (3)
حوالہ جات:
1- بحارالانوار، ج 25، ص 73، روايت 63-
2- درالمنثور، ج 6، ص 371-
3- شيعہ تفاسير "مجمع البيان، الميزان اور تفسير نمونہ سے رجوع کريں-
ترجمہ: محمد حسین حسینی
متعلقہ تحریریں:
روزہ، روح لطيف اور عزم صميم
روزہ جبلتوں پر قابو پانے کا ذريعہ