شيخ کي شہرت اور بلند آوازگي
شيخ سعدي اور علامہ ابوالفرج عبدالرحمن ابن جوزي
شيخ کو بچپن سے فقر اور درويشي کي طرف زيادہ ميلان تھا
شيخ کي شاعري کي شہرت اس کي زندگي ميں
شيخ اور حکيم نزاري قہستاني کي حکايت
يہ جملہ شيخ کے کان تک بھي پہنچ گيا اس کو کمال افسوس ہوا اور يہ سمجھا کہ حکيم نے ہماري مہمان داري ميں شايد کوئي قصور ديکھا- چند مدت کے بعد حسن اتفاق سے شيخ کا محبت اور اخلاق سے شيخ کا گزر قہستان ميں ہوا اور حکيم نزاري سے ملاقات ہوئي- حکيم بہت محبت اور اخلاق سے پيش آيا دعوت ميں کچھ زيادہ تکلف نہيں کيا- پہلے روز جو کھانا دسترخوان پر آيا وہ محض رسمي اور سيدھا اور سادہ تھا دوسرے وقت ايک بھنے ہوئے تيتر کے سوا اور کچھ نہ تھا تيسرے وقت ايک گوشت کا ابلا ہوا پارچہ اور خشکہ تھا چلتے وقت حکيم نے شيخ سے معافي چاہي اور کہا جس طرح آپ نے ميري ضيافت ميں تکلفات کيے تھے اس طرح سے مہمان آخر کو بار خاطر ہو جاتا ہے ليکن ہمارا يہ طريقہ ايسا نہيں ہے- شيخ کو اس جملے کا مطلب جو نزاري نے شيراز سے چلتے وقت کہا تھا اب معلوم ہوا-
اس حکايت سے شيخ کي شہرت اور بلند آوازگي کے علاوہ يہ بھي معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذہبي تعصبات سے مبرا تھا- فرقہ اسمعيليہ کے لوگ اس زمانے ميں عموما ملحد اور بے دين سمجھے جاتے تھے اور کوئي فرقہ مسلمانوں کے نزديک اسمعيليوں سے زيادہ مغبوض اور مردود نہ تھا- پس شيخ کي کمال بے تعصبي تھي کہ اس نے ہمارے عہد کے مولويوں اور واعظوں کے بر خلاف ايک غريب اسمعيلي کي اپنے وطن ميں اس قدر خاطر اور مدارات کي اور خراسان ميں خود اس سے جا کر ملا اور اس کا مہمان رہا- الغرض يہ حال شيخ کي شہرت کا خود اس کے زمانے ميں تھا اور اس کے مرنے کے بعد جو عام مقبوليت اس کے کلام نے حاصل کي، اس کے بيان کرنے کي کچھ ضرورت نہيں-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان