شيخ سعدي اور علامہ ابوالفرج عبدالرحمن ابن جوزي
شيخ سعدي کا نام، نسب، ولادت اور بچپن
شيخ کي تعليم کا حال
سعدي کے زمانے ميں مسلمانوں کے بے شمار مدرسے بلاد اسلام ميں کھلے ہوئے تھے
علامہ ابوالفرج عبدالرحمن ابن جوزي حديث اور تفسير ميں اپنے وقت کا امام تھا- بے شمار کتابيں اس کي تصنيفات سے ہيں- کہتے ہيں اس نے مرتے وقت وصيت کي تھي کہ ميں نے جن قلموں سے حديث لکھي ہے ان کا تراشہ ميرے حجرے ميں جمع ہے مرنے کے بعد جب مجھ کو نہلائيں تو غسل کے ليے اس تراشے سے پاني گرم کريں- چنانچہ اس کي وصيت کے موافق عمل کيا گيا اور پاني گرم ہو کر کچھ تراشہ بچ رہا-
جس زمانے ميں شيخ بغداد ميں علاوہ ابن جوزي سے پڑھتا تھا اس وقت شيخ کي جواني کا آغاز تھا- دولت شاہ سمرقندي اور سرگورا وسلي نے لکھا ہے کہ ابن جوزي سے تحصيل حاصل کرنے کے بعد شيخ نے حضرت شيخ عبدالقادر جيلاني رح سے بيعت کي تھي اور ان سے علم تصوف اور طريق معرفت و سلوک حاصل کيا اور پہلي مرتبہ انہيں کے ساتھ بيت اللہ کے حج کو کيا مگر يہ بات بالکل غل ہے کيوں کہ شيخ عبدالقادر جيلاني کي وفات سنہ 561 ھ ميں يعني شيخ سعدي کي ولادت سے بہت پہلے ہو چکي تھي- البتہ اس ميں شک نہيں کہ شيخ شہاب الدين سہروردي سے اس کو صحبت رہي ہے اور ايک بار سفر دريا ميں وہ ان کے ساتھ رہا ہے-
شيخ کے بيان سے معلوم ہوتا ہے کہ طالب علمي کے زمانے ميں اس کے ہم عمر اور ہم سر لوگ اس کي خوش بياني اور حسن تقرير پر رشک کرتے تھے- چنانچہ ايک بار اس نے استاد سے شکايت کي کہ فلان طالب علم مجھ کو رشک کي نگاہ سے ديکھتا ہے جب ميں آپس ميں بيٹھ کر مسائل علميہ بيان کرتا ہوں تو وہ حسد سے جل جاتا ہے- استاد يہ سن کر شيخ پر غصے ہوا اور يہ کہا کہ اوروں کے رشک و حسد کي تو شکايت کرتے ہو اور اپني بدگوئي اور غيبت کو برا نہيں سمجھتے- تم دونوں اپني عاقبت خراب کرتے ہو، وہ رشک و حسد سے اور تم بدگوئي و غيبت سے-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان